اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) حماس نے غزہ میں قید مزید 3 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے، جب کہ اسرائیل کے زیر حراست 183 فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ بھی کچھ دیر بعد کیا جائے گا۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کو ہفتے کی صبح ایک تقریب میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے حوالے کیا گیا، غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ پانچواں تبادلہ ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کرنے کی تجویز کے تناظر میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
مارچ کے اوائل تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیل کے مزید 3 سویلین افراد 52 سالہ ایلی شاربی، 34 سالہ یا لیوی اور 56 سالہ احد بن امی کو رہا کیا گیا۔
قیدیوں کی حوالگی سے قبل انہیں وسطی غزہ کے علاقے دیر البلاح میں بنائے گئے ایک اسٹیج پر لایا گیا، جس کے ارد گرد قاسم بریگیڈ کے اہلکار موجود تھے، اور ان کے ہاتھوں میں رہائی کا سرٹیفکیٹ تھا، اسٹیج پر لگے بینرز پر لکھا تھا: ’ہم سیلاب ہیں، ہم جنگ کا اگلا دن ہیں۔‘
الجزیرہ کے طارق ابو عزوم کی خبر کے مطابق ہجوم نے حماس کے عسکری ونگ قسام بریگیڈ کی حمایت میں نعرے لگائے۔
رہائی پانے والے تینوں افراد 16 ماہ کی آزمائش کے بعد کمزور نظر آئے۔
یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم نے ایک بیان میں کہا کہ احد، ایلی اور یا کی رہائی کی پریشان کن تصاویر ایک اور واضح اور دردناک ثبوت ہے، جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کا مزید وقت نہیں ہے، ہمیں ان سب کو آخری یرغمال بنانے کے لیے اب باہر نکالنا ہوگا۔
حماس کی فوج کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق یرغمالیوں کو فوری طور پر اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس افسران کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ ایلیٹ یونٹس انہیں اسرائیل لے جا سکیں۔
شاربی اور احد بن امی دونوں کو 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران نشانہ بنائے جانے والے کسان برادری کبوتز بیری سے اغوا کیا گیا تھا، جس میں تقریباً ایک ہزار 200 افراد ہلاک اور 250 یرغمال بنائے گئے تھے، لیوی کو نووا میوزک فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا۔
اردن کے شہر عمان سے رپورٹنگ کرتے ہوئے الجزیرہ کے حمدہ سلہوت نے بتایا کہ رہائی پانے والے پہلے قیدی نے حماس کے مسلح جنگجوؤں کے درمیان عبرانی زبان میں اسٹیج پر بات کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر عمل کرے، اسرائیلی عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تل ابیب کے یرغمالی اسکوائر پر اسرائیلی انتظار کر رہے تھے، یہ قیدیوں کے اہل خانہ کے لیے ایک علامتی جگہ بن گئی ہے اور اسرائیلی عوام کے لیے، جو ان کی رہائی کے لیے مہم چلا رہے ہیں اور [وزیر اعظم] بینجمن نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی پاسداری کریں۔