
پاکستان کی اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے پر “نام نہاد خودمختاری” بڑھانے کی کوشش کی شدید مذمت
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دفترِ خارجہ نے جمعرات کے روز اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں پر اپنی “نام نہاد خودمختاری” کے نفاذ کوشش کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایک روز قبل اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے ایک بل کی ابتدائی منظوری دی، جس کے تحت اسرائیلی قانون کو مقبوضہ مغربی کنارے پر لاگو کیا جائے گا۔
بدھ کے روز اسرائیلی قانون سازوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق دو بلز کو منظور کرنے کے لیے ووٹ دیا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک امن معاہدہ منظور کیا تھا، جس کا مقصد دو سال سے جاری غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ختم کرنا تھا — یہ حملہ حماس کے ایک حملے کے ردعمل میں کیا گیا تھا۔
دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا پاکستان اسرائیل کی اس کوشش کی سختی سے مذمت کرتا ہے جس کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے، بشمول غیر قانونی اسرائیلی بستیاں، پر اپنی نام نہاد خودمختاری کے نفاذ کے لیے مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات “بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں، اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
دفترِ خارجہ کے مطابق ایسے اشتعال انگیز اور غیر قانونی اقدامات خطے میں امن اور استحکام کے جاری اقدامات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرے تاکہ اسرائیل کے ان غیر قانونی اقدامات کو روکا جا سکے اور قابض افواج کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ بنایا جا سکے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اپنے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر فلسطینی عوام کے حقوق، بالخصوص حقِ خودارادیت کے تحفظ اور امن، انصاف اور وقار کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔
دفترِ خارجہ نے فلسطینی مقصد کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ بھی کیا، جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، خودمختار، قابلِ عمل اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت شامل ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیشرفت
بدھ کے روز اسرائیلی پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ اس قانون کی منظوری کے لیے درکار چار مراحل میں سے پہلا تھا۔ یہ ووٹنگ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے اسرائیل کے دورے کے دوران ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جماعت “لیکود” نے اس بل کی حمایت نہیں کی، جو حکومت سے باہر کے ارکان نے پیش کیا تھا۔ یہ بل 25 کے مقابلے میں 24 ووٹوں سے منظور ہوا۔ ایک دوسرا بل، جس میں معالیہ ادومیم بستی کے انضمام کی تجویز دی گئی تھی، 31 کے مقابلے میں 9 ووٹوں سے منظور ہوا۔
نیتن یاہو کے حامی کئی سالوں سے مقبوضہ مغربی کنارے کے باضابطہ انضمام کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، جسے اسرائیل تاریخی اور مذہبی دلائل سے درست قرار دیتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ اور بیشتر عالمی برادری ان علاقوں کو “مقبوضہ” تسلیم کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے 2024 میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور وہاں کی آبادیاں غیر قانونی ہیں، جنہیں جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے۔
فی الوقت فلسطینی اتھارٹی کو مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض حصوں میں محدود خودمختاری حاصل ہے۔
امریکہ کا ردِعمل
ادھر امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز اسرائیل کو متنبہ کیا کہ مغربی کنارے کے انضمام کے اقدامات حالیہ غزہ امن معاہدے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔انہوں نے کہا صدر نے واضح کر دیا ہے کہ فی الحال ہم اس عمل کی حمایت نہیں کر سکتے۔
روبیو نے مزید کہا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ اور آبادکاروں کے تشدد کے واقعات امن معاہدے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا۔ وہ ایک جمہوریت ہیں وہ اپنے فیصلے کریں گے، لیکن اس وقت یہ قدم غیر موزوں اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
انتہا پسند اسرائیلی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر بڑھتے تشدد کے سوال پر روبیو نے کہا ہم کسی بھی ایسے اقدام پر تشویش رکھتے ہیں جو خطے میں استحکام کو متاثر کرے۔تاہم انہوں نے مجموعی طور پر امن عمل کے حوالے سے امید کا اظہار کیا۔
“یقیناً ہر روز خطرات موجود ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے ہدف سے آگے بڑھ رہے ہیں، اور یہ کہ اس ہفتے کے واقعات کے باوجود امن عمل برقرار رہا، یہ ایک مثبت اشارہ ہے۔