
کیا خیبر پختونخوا میں اب دو وزرائے اعلیٰ ہیں؟ قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں ؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں اہم معاملے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ جب پی ٹی آئی کے سہیل آفریدی نے ہنگامہ خیز ماحول میں حلف اٹھایا،تو خیبر پختونخوا ایک آئینی ابہام میں گھِر گیا،ایک ایسا صوبہ جہاں بظاہر دو وزرائے اعلیٰ موجود ہیں اور قانونی ماہرین اس بات پر منقسم ہیں کہ حقیقی اختیار کس کے پاس ہے۔
ایک بھرپور سیاسی دن میں خیبر پختونخوا اسمبلی نے پی ٹی آئی کے سہیل آفریدی کو نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کیا۔ لیکن ان کی کامیابی احتجاج، واک آؤٹ اور ایک بڑھتے ہوئے آئینی بحران کے درمیان سامنے آئی یہ سوال برقرار رہا کہ آیا سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے واقعی اپنا عہدہ چھوڑا بھی ہے یا نہیں۔
جب ایوان میں “سہیل آفریدی زندہ باد” کے نعرے گونج رہے تھے، اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی، اور پورے انتخابی عمل کو “غیر آئینی” قرار دے دیا۔ تاہم اسپیکر بابر سلیم سواتی نے آرٹیکل 130 کے تحت اس انتخاب کو قانونی قرار دیا حالانکہ گورنر فیصل کریم کنڈی نے گنڈا پور کا استعفیٰ “دستخطوں میں تضاد” کے باعث واپس بھیج دیا تھا۔
اس تمام صورتِ حال نے ایک اہم بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا ایک نیا وزیرِ اعلیٰ اس وقت منتخب کیا جا سکتا ہے جب پرانا اب بھی منصب پر موجود ہو؟ قانونی ماہرین اب اس پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ آیا اسمبلی کا اقدام آئینی تھا یا اس نے قانون کو پامال کیا۔
عوامی مینڈیٹ کو روکنے کی ناکام کوشش
وکیل عبدالمعیز جعفری نے کہا اپوزیشن کا واک آؤٹ بے معنی ہے، جیسے گورنر کا دستخطوں کی مشابہت پر شرلاک ہومز بننے کا ڈرامہ غیر متعلقہ ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نے استعفیٰ دیا استعفیٰ فوراً مؤثر ہو جاتا ہے۔ ایوان نے نیا قائد چُن لیا ہے۔
ان کے مطابق معاملہ سادہ ہے،خیبر پختونخوا میں صرف ایک ہی وزیرِ اعلیٰ ہے وہ جسے آج اکثریت نے منتخب کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کو روکنے کی کوئی بھی کوشش “چند لوگوں کی اکثریت کی مرضی کو دبانے کی مایوس کن کوشش ہے
جعفری نے مزید کہا ہے کہ یہ دلیل دینا کہ ایسا پہلے بھی ہوا ہے، کوئی جواز نہیں۔ یہ پہلے بھی غلط تھا، اب بھی غلط ہے اور نقصان ہمیشہ آئینی نظام کا ہوتا ہے۔
ایک آئینی ابہام کی تشکیل
وکیل مرزا معیز بیگ نے اس صورتحال کو “آئینی ” قرار دیا یعنی ایک غیر معمولی آئینی ابہام۔ان کے مطابق گورنر کا استعفیٰ قبول نہ کرنا ناقابلِ فہم ہے، خاص طور پر جب وہ خود اس استعفیٰ کو تسلیم کر چکے ہیں لیکن دوسری طرف اسپیکر کا استعفیٰ قبول ہونے سے پہلے نئے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب کرانا بھی آئینی طور پر کمزور عمل ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ آئین بعض صورتوں میں واضح مدت طے کرتا ہے، مثلاً اگر وزیرِ اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرے تو گورنر کی منظوری نہ ہونے کے باوجود 48 گھنٹے میں فیصلہ مؤثر ہو جاتا ہے،لیکن وزیرِ اعلیٰ کے استعفیٰ کے معاملے میں کوئی ایسی شق موجود نہیں۔
بیگ کے مطابق اسپیکر نے جلدبازی دکھائی۔“اگر ایوان چاہتا تو عدم اعتماد کے ذریعے وزیرِ اعلیٰ کو ہٹا سکتا تھا یا گورنر کی تاخیر کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا، لیکن اسپیکر کا براہِ راست نیا انتخاب کروانا آئینی طور پر درست نہیں۔”
تاریخ رسمی تاخیر برداشت نہیں کرتی
وکیل احمد معود عاصف کے مطابق ایک وقت میں دو وزرائے اعلیٰ نہیں ہو سکتے، لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ رسمی رکاوٹیں اسمبلی کی مرضی کو شکست نہیں دے سکتیں۔ان کا کہنا تھا،اگر گورنر بلاوجہ عمل کو کھینچتا ہے،جیسا کہ یہاں ہوا، تو خط، دوسرا خط، تقریر اور ٹویٹ سب کافی ہیں۔عدالتیں ایسے مصنوعی تاخیری حربوں کو غیر آئینی قرار دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ جب کورم پورا ہو اور ایوان کی اکثریت واضح ہوتو اپوزیشن کا واک آؤٹ عمل کو کالعدم نہیں کر سکتا۔ تاریخ رسمی تاخیر کو نہیں یاد رکھتی وہ صرف اُنہیں یاد رکھتی ہے جو آئین کے ساتھ کھڑے رہے۔
آئینی اختیارات میں تصادم کا خدشہ
وکیل ایمن ظفر نے کہا ہے کہ آئین میں وزیرِ اعلیٰ کو صوبے کے واحد ایگزیکٹو سربراہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اصل اختلاف تشریح کا ہے۔ان کے مطابق اصل سوال یہ ہے کہ کیا سابق وزیرِ اعلیٰ کو نئے انتخاب سے پہلے آئینی طور پر ہٹایا گیا یا نہیں۔ آئین میں گورنر کی منظوری لازمی نہیں، لیکن آرٹیکل 133 کے تحت گورنر سابق وزیرِ اعلیٰ سے درخواست کر سکتا ہے کہ وہ نئے کے تقرر تک کام جاری رکھے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر گورنر نے ایسا کیا، تو عملی طور پر آرٹیکل 133 نافذ ہو جائے گا اور موجودہ وزیرِ اعلیٰ اپنی جگہ برقرار رہ سکتا ہے۔ایسے میں نیا انتخاب ایک آئینی اوورلیپ پیدا کرے گا، ایمن ظفر نے کہا ہے کہ چاہے کورم پورا ہو، لیکن طریقہ کار کی غیر وضاحت انتخاب کی قانونی حیثیت کو کمزور کر سکتی ہے اور معاملہ عدالت میں جا سکتا ہے۔”
جمہوری اور آئینی عمل مکمل ہو چکا ہے
وکیل زینب شاہد نے واضح موقف اختیار کیا آئین کے آرٹیکل 130(8) کے مطابق وزیرِ اعلیٰ صرف ایک تحریری استعفیٰ گورنر کو دے کر منصب چھوڑ سکتا ہے — گورنر کی منظوری یا تائید کی کوئی شرط نہیں۔ان کے مطابق گورنر کا بار بار استعفیٰ مسترد کرنا، کبھی دستخطوں کا اعتراض، کبھی وصولی سے انکار سب غیر قانونی تاخیری حربے ہیں تاکہ ‘ناپسندیدہ’ امیدوار کو روکا جا سکے۔
انہوں نے کہا جب وزیرِ اعلیٰ دو بار استعفیٰ دے چکے ہیں اور عوامی سطح پر اس کا اعلان بھی کر چکے ہیں، تو اسمبلی کو نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کرنے سے کوئی آئینی رکاوٹ نہیں۔
زینب شاہد کے مطابق سہیل آفریدی کو 145 میں سے 90 ووٹ ملے اس کے بعد جمہوری اور آئینی عمل مکمل ہو چکا ہے۔ تمام ریاستی اداروں کو اسے عوامی مینڈیٹ کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے، نہ کہ آئین کا مذاق بناتے رہنا۔
اسمبلی کا اقدام تقسیم نہیں، تکمیل کے لیے ہے
وکیل باسل نبی ملک نے ایک متوازن آئینی تشریح پیش کی۔انہوں نے کہا آرٹیکل 130 کے تحت وزیرِ اعلیٰ اپنا استعفیٰ گورنر کو دیتا ہے، لیکن آئین کہیں بھی گورنر کو اس استعفیٰ کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
انہوں نے مزید کہا آرٹیکل 133 کے مطابق گورنر صرف اتنا کر سکتا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سے درخواست کرے کہ وہ نئے کے تقرر تک کام جاری رکھے۔ یوں استعفیٰ دیتے ہی منصب خالی تصور ہو سکتا ہے اور گورنر کا انکار صرف آرٹیکل 133 کے اطلاق کے مترادف ہوگا۔
باسل نبی ملک نے کہا اگر آرٹیکل 133 کو غیر لازمی سمجھا جائے تو قانونی خلا پیدا ہوگا جو شاید آئین سازوں کا ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے اسمبلی کا حالیہ انتخاب دراصل متبادل کے تقرر کی کوشش ہے، نہ کہ دو متوازی وزرائے اعلیٰ بنانے کی۔