
پوتن، مودی کی دہلی میں ملاقات،امریکا کے بڑھتے دباؤ کے درمیان تجارت بڑھانے پر اتفاق
پوتن کا سوال: امریکا خود روسی ایندھن خریدتا ہے تو بھارت پر پابندی کیوں؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) روسی صدر ولادی میر پوتن جمعرات کو نئی دہلی دو روزہ سرکاری دورے پر پہنچے، جہاں وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ تجارتی تعاون، دفاعی شراکت داری اور توانائی روابط کو مضبوط بنانے پر بات چیت کریں گے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بھارت روسی تیل کی درآمدات اور ماسکو کے ساتھ بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک قربت کے باعث امریکی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔
پوتن کا یہ بھارت کا چار سال بعد پہلا دورہ ہے۔ یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب نئی دہلی روسی رعایتی تیل کی خریداری پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد تعزیری محصولات پر واشنگٹن سے مذاکرات کر رہا ہے۔ یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین جنگ کے بعد روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کے نتیجے میں بھارت سمندری راستے سے روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے۔
ادھر ماسکو بھارتی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے اور دو طرفہ تجارت کو 2030 تک 100 ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہاں ہے، تاکہ موجودہ عدم توازن جو زیادہ تر روسی توانائی کی برآمدات کے حق میں ہے کو بہتر بنایا جا سکے۔
امریکی تھنک ٹینک کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کے مطابق بھارت ایک مشکل دوراہے پر کھڑا ہے۔واشنگٹن یا ماسکو میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے سے دوسرے کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔
گرم جوشی سے استقبال — دونوں رہنماؤں کا مضبوط تعلقات کا پیغام
مودی نے ایئرپورٹ پر پوتن کا گرمجوشی سے استقبال کیا،دونوں نے گلے مل کر مصافحہ کیا۔ بعد ازاں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر دونوں نے نجی عشائیہ میں شرکت کی، جس سے دہلی اور ماسکو کے دیرینہ دوستانہ تعلقات کی جھلک ملتی ہے۔
پوتن کے ہمراہ اعلیٰ روسی حکام، بشمول وزیرِ دفاع آندرے بیلوسوف، بھی موجود تھے جنہوں نے بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی۔ مذاکرات کے بعد بھارتی وزارتِ دفاع نے کہا کہ روس، بھارت کو دفاعی پیداوار میں خود انحصاری حاصل کرنے میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔
یہ دورہ پوتن کی امریکی نمائندوں سے یوکرین جنگ پر ممکنہ امن معاہدے سے متعلق بات چیت کے بعد ہو رہا ہے — جو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوئی۔
بھارت نے روس کے خلاف مغربی دباؤ کے باوجود ماسکو کی مذمت نہیں کی اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ جنگ کا حل صرف “مکالمے اور سفارت کاری” سے ممکن ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ ماسکو کے ساتھ اس کے تعلقات کو بلاوجہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب کہ مغربی ممالک بھی موقع ملنے پر روس کے ساتھ تجارت جاری رکھتے ہیں۔
بھارتی تیل کی خریداری پر امریکی تنقید — پوتن کا سوال
اپنے دورے کے فوراً بعد انڈیا ٹوڈے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پوتن نے بھارت کی روسی تیل خریداری پر امریکی اعتراضات پر سوال اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا خود اپنے جوہری ری ایکٹرز کے لیے روسی فیول خریدتا ہے۔انہوں نے کہا اگر امریکا روسی ایندھن خریدنے کا حق رکھتا ہے تو بھارت کو کیوں نہیں؟ ساتھ ہی انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اس معاملے پر ٹرمپ سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارت جس کی مصنوعات پر ٹرمپ نے 50 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا ہوا ہے،امریکا کے اس مؤقف کو غیرمنصفانہ اور تضادات سے بھرپور قرار دیتا ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ امریکا اور یورپی یونین اب بھی روسی اجناس میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں۔
اگرچہ بھارتی خام تیل کی درآمدات میں حالیہ ماہ میں کمی آئی ہے جو تین سال کی کم ترین سطح تک گر رہی ہیں لیکن پوتن نے کہا کہ روس اور بھارت کے درمیان تیل کی تجارت اب بھی “مستحکم” ہے۔
تجارت میں اضافہ اور تنوع کی کوششیں
بھارت اور روس کی تجارت 2021 میں 13 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024–25 میں تقریباً 69 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جس میں زیادہ حصہ روسی توانائی کی درآمدات کا ہے۔ البتہ اپریل تا اگست 2025 کے دوران تجارت کم ہو کر 28.25 ارب ڈالر رہ گئی ہے، جو تیل کی کمی ہوئی ترسیلات کی وجہ سے ہے۔
دونوں حکومتیں تجارت کو زیادہ متوازن اور متنوع بنانے کی خواہاں ہیں۔
روس بھارتی کارخانوں کی مزید مصنوعات خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے، جب کہ بھارتی وزیرِ تجارت پیوش گوئل نے کہا کہ نئی دہلی گاڑیوں، الیکٹرانکس، مشینری، ٹیکسٹائل، خوراک اور دیگر اشیا کی برآمدات بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
روسی نائب چیف آف اسٹاف میکسم اوریشکن نے کہا کہ ماسکو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے، اور دونوں ممالک کا مشترکہ مقصد تجارت کو 100 ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔



