
پارلیمنٹ کی بالادستی: دعویٰ یا حقیقت؟ ایوان کے طرزِ عمل پر نئے سوالات ؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ نیشنل اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے جارحانہ بیان پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے، جسے انہوں نے پیر کے روز “غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز” قرار دیا۔ یاد رہے کہ جناب اچکزئی نے ایوان کی کارروائی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے عوامی دباؤ کے ذریعے بھی روکایا جا سکتا ہے۔
ڈان نیوز مزید لکھتا ہے کہ بحیثیت نگہبانِ ایوان، مسٹر صادق نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’پارلیمنٹ کا تحفظ میری ذمہ داری ہے‘‘، اور یہ بھی واضح کیا کہ ’’ایسی سوچ اور بیانات کی اجتماعی طور پر حوصلہ شکنی ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ کی بالادستی، آئینی نظام کا استحکام اور جمہوری روایتوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے‘‘، جیسا کہ ایک حالیہ خبر میں ان کے ریمارکس کا خلاصہ بیان کیا گیا۔ خوش قسمتی سے معاملہ زبانی تکرار سے آگے نہ بڑھا، اور مسٹر صادق نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قرارداد پر ووٹنگ کو روک دیا جس میں مسٹر اچکزئی کے بیان کی مذمت اور ان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا، اگرچہ انہوں نے قرارداد کو پڑھ کر سنانے کی اجازت دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق تاہم ایک وسیع تر سوال جنم لیتا ہے کیا پارلیمنٹ کی حرمت صرف زبانی دعووں تک محدود ہے یا اسے عملی طور پر بھی برقرار رکھا جائے گا؟ مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے چلنے کا طریقہ دیکھیں۔ اپنے سابقہ پارلیمانی رہنما کے 9 مئی کیس میں گرفتاری کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اجتماعی طور پر محمود خان اچکزئی کو ایوان میں اپنا قائد نامزد کیا تھا۔ لیکن ایاز صادق نے اس نامزدگی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور پیر کو جب اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر کہا گیا تو اسپیکر نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وہ، بطور اسپیکر، انہیں اس حیثیت میں نہیں مانتے۔
اسپیکر یا ان کے منصب کیلئے اپوزیشن کو اس طرح روکنا زیب نہیں دیتا۔ وسیع پیمانے پر یہ قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں کہ کچھ حلقے مسٹر اچکزئی کو ان کے سیاسی مؤقف کی وجہ سے ’ناپسندیدہ‘ سمجھتے ہیں۔ اسپیکر کا اس سوچ سے ہم آہنگ دکھائی دینا نہ صرف ان کے منصب کے وقار کو مجروح کرتا ہے بلکہ پارلیمنٹ کی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
ڈان نیوز مذید لکھتا ہے کہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ برسوں میں پارلیمنٹ نے کس طرح بڑے اور دور رس قوانین منظور کیے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ 26ویں ترمیم کے منظور ہونے کا طریقہ کسی طور سنجیدہ یا باوقار نہیں تھا۔ یہی حال 27ویں ترمیم کا بھی ہے۔ جب کسی ادارے کو بار بار ’بالادست‘ کہا جائے لیکن وہ عملاً صرف توثیق کرنے کا کردار ادا کرتا دکھائی دے، تو وہ اپنے عہدیداروں کے مطالبے کے مطابق حقیقی احترام حاصل کرنے کی توقع نہیں رکھ سکتا۔
اپوزیشن کو بھی اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اپنے اسیر قائد میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس کے نمائندے عوامی نمائندگی کی ذمہ داریوں سے غافل دکھائی دیتے ہیں اور ایک ہی نکاتی ایجنڈے کے اسیر ہیں۔ ایک ایسی پارلیمنٹ جو ذاتی لڑائیوں اور تنگ نظری پر مبنی ایجنڈوں میں الجھی ہو، عوام کا احترام کیسے حاصل کرے گی؟ عوام ایک ایسی قانون ساز اسمبلی کے مستحق ہیں جو خود کو سنجیدگی سے لے۔ اگر ہمارے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے لیے عزت چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اپنے عمل سے اس کا ثبوت دینا ہوگا۔




