
بھارت کی متنازع سرکاری سائبر سیفٹی ایپ نے شدید سیاسی ہنگامہ برپا کر دیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کی جانب سے اسٹیٹ اونڈ (سرکاری) سائبر سکیورٹی ایپ کو تمام نئے اسمارٹ فونز میں پری لوڈ کرنے کی لازمی شرط نے شدید سیاسی ہنگامہ برپا کر دیا ہے، جس سے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں حکومتی نگرانی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
یہ ایپ ’سنچار ساتھی‘ کہلاتی ہے، یعنی ’کمیونی کیشن پارٹنر‘، اور یہی ایپ اس وقت ایپل، سام سنگ، شاومی اور دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ان کمپنیوں کو 90 دن کے اندر اس حکم پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
ایپ کیا سہولیات فراہم کرتی ہے؟
ایپل اور اینڈرائیڈ، دونوں ایپ اسٹورز میں موجود سنچار ساتھی کو شہریوں کے لیے حفاظتی ٹول قرار دیا جاتا ہے۔یہ ایپ صارفین کو اپنے کھوئے یا چوری شدہ فون کی بلاکنگ اور ٹریکنگ کی سہولت دیتی ہے، جو فون کے بین الاقوامی شناختی نمبر آئی ایم ای آئی کی مدد سے ممکن ہوتی ہے۔
ایپ کے ذریعے صارف یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس کے نام پر کتنے موبائل کنیکشن رجسٹر ہیں، تاکہ جعلی یا دھوکہ دہی پر مبنی نمبرز کی نشاندہی کی جا سکے۔
اضافی فیچرز میں مشتبہ فراڈ کالز کی رپورٹنگ اور سیکنڈ ہینڈ ڈیوائس خریدنے سے قبل اس کی مستند حیثیت چیک کرنے کے ٹولز شامل ہیں۔
نیا حکومتی حکم نامہ کیا ہے؟
28 نومبر کو بھارت کی ٹیلی کام وزارت نے تمام اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں کو نجی طور پر ہدایت دی کہ وہ اپنے ’’تمام نئے‘‘ فونز میں یہ ایپ پری لوڈ کریں۔
حکم کے مطابق ایپ ’’واضح، فعال اور فون کی پہلی سیٹ اپ اسکرین پر فعال حالت میں‘‘ موجود ہونی چاہیے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صارفین ایپ کو نہ تو غیر فعال کرسکیں گے اور نہ اس کے فیچرز محدود کرسکیں گے۔
جو ڈیوائسز پہلے ہی تیار ہو چکی ہیں، ان پر یہ ایپ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے ذریعے لازمی انسٹال کی جائے گی۔
انڈسٹری کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ اپ ڈیٹس کے ذریعے یہ ایپ بالآخر موجودہ صارفین تک بھی پہنچ جائے گی یعنی یہ مجموعی طور پر 735 ملین سے زائد افراد کے فونز میں شامل ہو سکتی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام آئی ایم ای آئی چھیڑ چھاڑ سے پیدا ہونے والے ’’سنگین سائبر سکیورٹی خطرات‘‘ سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
سنچار ساتھی کے اعداد و شمار، ڈیٹا کلیکشن
بھارتی حکومت کے مطابق یہ ایپ ایک کروڑ (10 ملین) سے زائد بار ڈاؤن لوڈ ہو چکی ہے، اور سسٹم نے اب تک 42 لاکھ سے زائد چوری/گم شدہ فون بلاک کیے ہیں۔
اسی طرح 3 کروڑ (30 ملین) سے زیادہ جعلی موبائل کنیکشنز بھی منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایپ آپ سے کسی بھی قسم کی ذاتی معلومات خودکار طور پر جمع نہیں کرتی۔
پرائیویسی پالیسی کے مطابق صارفین سے کیمرہ، تصاویر اور فائلز تک رسائی کی اجازت صرف مخصوص فیچرز کے لیے مانگی جائے گی۔
اینڈرائیڈ صارفین سے درج ذیل اجازتیں لی جائیں گی
کال لاگز تک رسائی
رجسٹریشن کے لیے ایس ایم ایس بھیجنے کی اجازت
موبائل نمبرز شناخت کرنے کے لیے کالز بنانے/مینج کرنے کی رسائی
کیمرہ اور تصاویر تک رسائی
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایپل کو اس ایپ کے باعث اپنی پرائیویسی اور سیکیورٹی سے متعلق کمزوریوں پر تشویش ہے۔
کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے مطابق بھارت میں 95 فیصد سے زیادہ اسمارٹ فونز اینڈرائیڈ پر چلتے ہیں، باقی آئی او ایس پر۔
حکومت کا مؤقف؛ عوام اور سیاسی ردعمل
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ افراد چوری شدہ فونز پر جعلی یا کلون شدہ آئی ایم ای آئی استعمال کرتے ہیں، جس سے نہ صرف گرفتاری مشکل ہو جاتی ہے بلکہ ڈیوائسز کو بلاک کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
چوں کہ بھارت میں استعمال شدہ فونز کی بڑی مارکیٹ موجود ہے، اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ لوگ غلطی سے چوری شدہ یا بلیک لسٹ ڈیوائس نہ خریدیں۔
تاہم یہ حکم نامہ ٹی وی مباحثوں اور سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی زد میں آ گیا ہے۔پرائیویسی کے ماہرین اور سیاسی مخالفین اسے نگرانی کا دروازہ قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
فری اسپیچ کے لیے کام کرنے والی تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف آخر تک جدوجہد کرے گی۔




