
ستائیسویں آئینی ترمیم اور پاکستان کی ابھرتی ہوئی عسکری حکمتِ عملی
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دی ڈپلومیٹ میں لکھے گئے ایک آرٹیکل کے مطابق پاکستان کے دفاعی ڈھانچے میں 27ویں آئینی ترمیم نے جو اسٹریٹجک تبدیلی متعارف کروائی ہے اسے ہلکا نہیں لینا چاہیے۔
اگرچہ 27ویں ترمیم کے سیاسی محرکات اور سول ۔ ملٹری تعلقات پر ہونے والی گرما گرم بحث نمایاں رہی ہے، لیکن اصل اور زیادہ گہرا اثر پاکستان کی دفاعی ساخت کی اسٹریٹجک ازسرِ نو ترتیب میں پوشیدہ ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) کو چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کے عہدے پر ترقی دینا اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف (سی جے سی ایس سی) کا منصب ختم کرنا عسکری اختیارات کو ایک جگہ مرکوز کرتا ہے جس سے اسٹریٹجک منصوبہ بندی، جوہری نگرانی اور دفاعی وسائل کے انتظام کی بنیادیں بدل جاتی ہیں۔
اب سی او اے ایس -سی ڈی ایف تمام روایتی اور جوہری افواج کی قیادت کر رہا ہے۔ یہ فورسز پہلے سے زیادہ منظم ہو کر بھارت کے خلاف دفاعی تیاریوں، افغانستان سے پھیلنے والی دہشت گردی کے مقابلے، اور مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار پر یکساں توجہ دے رہی ہیں۔ اس تبدیلی سے بیوروکریٹک تقسیم کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات کم ہوتے ہیں اور ان عسکری پروگراموں پر بھی کنٹرول مضبوط ہوتا ہے جو کمزور نگرانی کے باعث خودمختاری اختیار کر گئے تھے۔ اس کے علاوہ، سی او اے ایس -سی ڈی ایف اب امریکہ، چین اور خلیجی ممالک جیسے اتحادیوں کو سلامتی کے وعدے زیادہ مؤثر طریقے سے دے سکتا ہے کیونکہ اس کے سامنے اب سی جے سی ایس سی یا سروس چیفس جیسے متعدد فیصلہ ساز مرکز موجود نہیں رہے۔ اس نئی ساخت سے بجٹ کو بہتر بنایا جا رہا ہے، دہرا خرچ کم ہو رہا ہے، اور اسٹریٹجک منصوبوں و خدمات کے درمیان نگرانی بہتر ہو رہی ہے، جس سے فوری دفاعی خریداریوں اور پاکستان کی عسکری تیاریوں کو مضبوط بنانے کے لیے وسائل میسر آئیں گے۔
اعلیٰ دفاعی تنظیم کی ارتقا: سی ان سی سے سی جے سی ایس سی تک
آزادی کے بعد پاکستان نے برطانوی نوآبادیاتی دور کا دفاعی ماڈل اپنایا جس میں آرمی کے کمانڈر اِن چیف (سی-ان-سی) تمام خدمات پر اثرانداز ہوتے تھے۔ ابتدا میں برطانوی افسران یہ عہدہ سنبھالتے رہے، 1951 میں جنرل ایوب خان پہلے مقامی سی-ان-سی بنے اور بحریہ و فضائیہ کو زیادہ خودمختاری دی۔ ایک جوائنٹ چیفس کمیٹی (جے سی سی) قائم ہوئی جو بعد میں جوائنٹ چیفس سیکریٹریٹ (جے سی ایس) بنی، لیکن یہ اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور مشترکہ آپریشنز میں مربوط کردار ادا نہ کر سکی۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں نے اس کمزوری کو بے نقاب کیا، اور مختلف سروسز الگ الگ چلتی رہیں۔
انیس سو تہتر1973 میں سی-ان-سی کے اختیارات کو تبدیل کرکے سروس چیفس تک محدود کر دیا گیا اور 1976 میں بھٹو حکومت نے جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز (جے ایس ایچ کیو) قائم کیا جس کی سربراہی ایک گھومتی ہوئی سی جے سی ایس سی کرتا تھا۔ لیکن 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا نے اختیارات دوبارہ آرمی چیف کے ہاتھ میں مرکوز کر دیے۔ اگرچہ نام نہاد “مشترکہ نظام” برقرار رہا، مگر سی جے سی ایس سی کی تقرریاں زیادہ تر آرمی سے ہوتی رہیں جس سے عملی طور پر فوج کی برتری قائم رہی۔
وقت کے ساتھ سی جے سی ایس سی نے منصوبہ بندی، عسکری سفارت کاری اور جوہری پالیسی کی نگرانی جیسے کردار سنبھالے، خاص طور پر 2010 کے نیشنل کمانڈ اتھارٹی ایکٹ کے بعد۔ مگر 2022 تک سی او اے ایس ڈی فیکٹو طور پر چین سمیت بڑی دفاعی مصروفیات کی قیادت کرنے لگا تھا جس سے ایک مضبوط واحد عسکری سربراہ کی راہ ہموار ہوئی۔
سی او اے ایس-سی ڈی ایف: نیا “نمبر ون” عسکری قائد
مئی 2025 میں بھارت کے ساتھ مختصر جنگ کے بعد پاکستان نے ایک بڑی دفاعی تبدیلی تجویز کی: سی جے سی ایس سی کا عہدہ ختم کرکے سی او اے ایس کو چیف آف ڈیفنس فورسز بنایا جائے۔ اس کے نتیجے میں سی جے سی ایس سی کے منصوبہ بندی اور کوآرڈی نیشن کے اختیارات سی او اے ایس–سی ڈی ایف کو منتقل ہو گئے جبکہ جوہری معاملات کی نگرانی کے لیے “کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ (این ایس سی)” کا نیا چار ستارہ عہدہ تخلیق کیا گیا۔
سی او اے ایس–سی ڈی ایف اب جنگی حکمت عملی، آپریشنز، فورس ڈیولپمنٹ، خریداری، اور وزیرِ اعظم کے مرکزی عسکری مشیر کا کردار سنبھالتا ہے۔ سی ڈی ایف ہیڈکوارٹرز آپریشنز، جنگی منصوبہ بندی، اور وسائل کی تقسیم کو تمام بری، بحری، فضائی اور میزائل فورسز کے درمیان مربوط کرے گا۔جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز کی ازسرنو تشکیل ہوگی، جبکہ سروس چیفس تربیت اور انتظام دیکھیں گے۔ عملی کنٹرول کے طریقہ کار ابھی مکمل واضح نہیں، اگرچہ ترقیوں کا اختیار تاحال سروس چیفس کے پاس ہے۔
نیا جوہری نگہبان: کمانڈر این ایس سی
نئے ڈھانچے کے تحت پاکستان کی جوہری فورسز کو نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ (این ایس سی) کے تحت یکجا کر دیا گیا ہے۔ پہلے ہر سروس اپنی جوہری کمانڈ چلاتی تھی جسے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) مربوط کرتا تھا۔ اب این ایس سی کا چار ستارہ جنرل براہِ راست سی او اے ایس-سی ڈی ایف کو جواب دہ ہوگا جو نئے قائم شدہ آرمی راکٹ فورس کمانڈ (اے آر ایف سی) کی بھی نگرانی کرے گا۔
اے آر ایف سی روایتی طویل فاصلے کے میزائلوں سے حملوں کا ذمہ اٹھائے گی جس سے پاکستان کو بھارت کے خلاف روایتی سطح پر زیادہ گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت ملے گی، بغیر اس کے کہ جوہری حد پار ہو۔
اس تبدیلی کے ساتھ سی او اے ایس-سی ڈی ایف جوہری پالیسی کا جائزہ لے سکے گا جو امریکہ کے ساتھ تلخی کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی اب ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں پر انحصار کم کرکے روایتی لمبے فاصلے کے میزائلوں اور جنگی صلاحیت پر توجہ کر رہی ہے۔
ایس پی ڈی اب صرف اسٹریٹجک جوہری باز روک تھام برقرار رکھنے پر توجہ دے گا، جبکہ اے آر ایف سی روایتی میزائل حملوں پر۔
فوجی کمانڈ میں اصلاحات: یہ وقت کیوں منتخب کیا گیا؟
پاکستان میں دفاعی کمانڈ کے ڈھانچے، خصوصاً سی جے سی ایس سی کے کردار پر طویل عرصے سے بحث ہوتی آئی ہے۔ جدید دور میں پاکستان کو بیک وقت کئی سطحوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی
انسدادِ بغاوت
روایتی جنگ
فضائی طاقت
طویل فاصلے کے میزائل آپریشن
مئی 2025 کی بھارت کے ساتھ جھڑپوں میں فضائی کارروائیاں،آرٹلری، ڈرونز، اور ایئر ڈیفنس سب شامل تھے۔افغانستان میں بھی ڈرون و فضائی حملے کیے گئے۔ اندرون ملک ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشنز جاری ہیں اور بلوچستان میں بغاوت بھی ایک محاذ ہے۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں پاکستان کا بڑھتا ہوا کردار بھی مربوط عسکری قیادت کا تقاضا کرتا ہے۔
پہلے ہر سروس اپنی منصوبہ بندی اور خریداری کرتی تھی جس سے وقت ضائع ہوتا، وسائل دہرائے جاتے، اور ترجیحات میں تضاد رہتا تھا۔ سی ڈی ایف ماڈل ان سب کو ایک جگہ لا کر فیصلہ سازی تیز کرتا ہے۔
سیاست یا اصلاح؟ تعاون یا مرکزیت؟
فوجی اصلاحات ہمیشہ سیاسی اثرات رکھتی ہیں،خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں فوج روایتی طور پر طاقتور ہے۔حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ بغیر سی او اے ایس کو سی ڈی ایف بنائے “جوائنٹ فورس” کبھی حقیقی نہیں بن سکتی۔ مخالفین کہتے ہیں کہ اس سے دیگر سروسز دب جائیں گی، اور آرمی کا اثر مزید بڑھے گا۔
اس توازن کے لیے تجویز ہے کہ
نیوی اور ایئر فورس سے نائب سی ڈی ایف بنائے جائیں
مستقبل میں سی او اے ایس اور سی ڈی ایف کے عہدے الگ کیے جائیں
سی ڈی ایف کا عہدہ سبکدوش ہونے والے سی او اے ایس کو دیا جائے
وقت کے ساتھ پاکستان ایک مکمل مشترکہ کمانڈ نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے، جس میں سائبر، اسپیس، اسپیشل فورسز سب سی ڈی ایف کے تحت ہوں۔
ابھرتی ہوئی عسکری حکمتِ عملی
بھارت کے ساتھ آئندہ کسی بڑے بحران میں اس نیا ڈھانچہ
تیز تر فیصلہ سازی،
مربوط عسکری کارروائی،
اور متحد سفارتی پیغام
کی راہ ہموار کرے گا۔
سی ڈی ایف کی قیادت میں روایتی اور میزائل فورسز زیادہ یکجا ہوں گی، اور جوہری نگرانی این ایس سی کے ذریعے بہتر ہوگی، جس سے جوہری غلط فہمیوں کا خدشہ کم ہوگا۔ اے آر ایف سی کی طویل فاصلے کی صلاحیت پاکستان کو بھارتی علاقوں کے اندر روایتی حملوں کی زیادہ گنجائش دے گی، بغیر جوہری دہلیز پار کیے۔
یہ نظام پاکستان کو بھارت کے ساتھ کسی آئندہ شدید بحران، مشرق وسطیٰ کی سلامتی، اور اندرونی سلامتی کے چیلنجوں سے زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت دے گا۔



