
سائنس دانوں نے 3.3 ارب سال پرانی چٹانوں میں زندگی کے آثار شناخت کیلئے اے آئی تیار کرلی
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق جدید کیمسٹری اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو یکجا کرتے ہوئے سائنس دانوں کی ایک کثیر الشعبہ ٹیم نے پیر کے روز 3.3 ارب سال پرانی چٹانوں میں زمین کی ابتدائی زندگی کے تازہ کیمیائی شواہد اور یہ ثبوت شائع کیے کہ آکسیجن پیدا کرنے والی ضیائی تالیف (فوٹو سنتھیسس) پہلے سے سمجھے گئے وقت سے 80 کروڑ سال پہلے ہی موجود تھی۔
امریکی اکیڈمی آف سائنسز کے جرنل نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی اس انقلابی تحقیق میں کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس اور کئی شراکتی جامعات و اداروں کے سائنس دانوں نے 400 سے زائد نمونوں کا تجزیہ کیا۔ ان میں قدیم تلچھٹ، فوسلز، جدید پودے اور جانور حتیٰ کہ شہابیوں کے نمونے بھی شامل تھے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا زندگی کے نشانات اصل نامیاتی مادّوں کے ختم ہو جانے کے باوجود چٹانوں میں باقی رہتے ہیں یا نہیں۔
مائیکل ایل وونگ، انیردھ پربھو اور ان کے ساتھیوں نے جدید کیمیائی تجزیے کی مدد سے نامیاتی اور بے نامیاتی دونوں طرح کے مادّوں کو توڑا اور اے آئی کو یہ سکھایا کہ زندگی کے چھوڑے گئے کیمیائی “فنگر پرنٹس” کیسے پہچانے جائیں وہ سگنلز جو اربوں سال کی موسمیاتی اور ارضیاتی تبدیلیوں کے باوجود برقرار رہ سکتے ہیں۔
کارنیگی سائنس کے مطابق نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی اصل رکھنے والے مادّوں (جیسے مائیکروبز، پودے، جانور) اور غیر حیاتیاتی مادّوں (جیسے شہابیاتی یا صنعتی کاربن) میں 90 فیصد سے زائد درستگی کے ساتھ فرق کیا جا سکتا ہے۔
یہ طریقہ کار 3.3 ارب سال پرانی چٹانوں میں بھی ایسے کیمیائی نمونے دریافت کرنے میں کامیاب رہا جو صرف حیاتیات سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے 1.7 ارب سال سے زیادہ پرانی چٹانوں میں ایسے شواہد نہیں ملے تھے۔ یوں یہ نتائج اس عرصے کو تقریباً دگنا کر دیتے ہیں جس کے دوران چٹانوں میں محفوظ نامیاتی مادّے اپنے قدیم جانداروں کے جسمانی نظام اور ارتقائی تعلقات سے متعلق مفید معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ آکسیجن پیدا کرنے والی فوٹوسنتھیسز کم از کم 2.5 ارب سال پہلے سے جاری تھی۔ یہ دریافت شمسی توانائی سے کاربن مالیکیولز میں محفوظ کیمیائی ریکارڈ کو 80 کروڑ سال مزید پیچھے لے جاتی ہے۔
زمین پر زندگی کے قدیم ترین آثار تلاش کرنے کے علاوہ یہ تحقیق مستقبل میں سیاروں سے باہر زندگی کے سراغ لگانے میں بھی اہم پیشرفت ثابت ہو سکتی ہے۔
کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس کے سینئر سائنس دان ڈاکٹر رابرٹ ہیزن نے کہا ہے کہ سوچیں کہ آپ ہزاروں جِگسا پزل کے ٹکڑے کمپیوٹر کو دکھائیں اور پوچھیں کہ اصل تصویر پھول کی تھی یا شہابئے کی۔
انہوں نے کہا کہ نتائج ظاہر کرتے ہیںقدیم زندگی صرف فوسلز نہیں چھوڑتی؛ یہ کیمیائی ‘گُونجیں’ بھی چھوڑ جاتی ہے اور مشین لرننگ کی مدد سے ہم پہلی بار ان گونجوں کی قابلِ اعتماد تشریح کر سکتے ہیں۔
تحقیق کا ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ جتنی پرانی چٹان ہوگی، زندگی کے آثار کا پتہ لگانا اتنا ہی مشکل ہوگا۔ گزشتہ 50 کروڑ سال کے نسبتاً کم عمر نمونوں میں حیاتیاتی سگنلز مضبوط پائے گئے۔
نتائج سے اشارہ ملتا ہے کہ خراب شدہ نامیاتی مادّے پر مشین لرننگ کا اطلاق زمین پر زندگی کے ارتقا سے متعلق دیرینہ سائنسی بحثوں کو سلجھانے میں مدد دے سکتا ہے۔
یہ طریقہ کار زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔ اگر AI اربوں سال پرانے زمینی نمونوں میں زندگی کے نشانات تلاش کر سکتی ہے، تو یہی تکنیک مریخ یا مشتری کے برفیلے چاند یوروپا سے ملنے والے نمونوں پر بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔



