
ماحولیاتی انصاف یا بیوروکریسی؟ تین سال بعد بھی نقصان و تلافی فنڈ سے ایک ڈالر نہیں ملا — ڈان نیوز اداریہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز اداریہ کے مطابق تقریباً تین سال گزر جانے کے باوجود اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس COP27 میں بڑے فخر سے قائم کیا گیا “فنڈ برائے نقصانات اور تلافی کے جواب” ابھی تک کسی بھی متاثرہ ملک کو ایک ڈالر بھی فراہم نہیں کر سکا۔
اداریے میں لکھا گیا ہے کہ یہ فنڈ، جو دراصل آفات کے فوراً بعد امداد پہنچانے کے لیے ایک تیز ردِعمل کا نظام ہونا چاہیے تھا، خود بیوروکریسی کے جال میں پھنس گیا ہے۔
ڈان نیوز لکھتا ہے کہ تقریباً 700 ملین ڈالر کے وعدوں کے باوجود صرف 300 ملین ڈالر جمع ہوئے ہیں اور یہ رقم بھی ان ممالک کے لیے ناکافی ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ فنڈ محض “خالی وعدہ”بن چکا ہے۔
ڈان کے مطابق جیسے ہی اس ماہ برازیل کے شہر بیلیم میں شروع ہونے جا رہی ہے، پاکستان کی حکومت 20 ملین ڈالر کی تجاویز کے بورڈ کو پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے اگرچہ حکام کو فنڈ کے ڈھانچے پر گہری تشویش ہے۔
ڈان نیوز اداریہ کے مطابق وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مصدق ملک نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کو تاحال کوئی مالی مدد نہیں ملی۔ ملک مسلسل سیلاب، خشک سالی اور گلیشیئر پگھلنے جیسے بحرانوں سے دوچار ہے، لیکن امداد کے دروازے بند ہیں۔
ڈان لکھتا ہے کہ 300 ملین ڈالر میں سے آدھی رقم چھوٹے جزائر اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے مخصوص ہے، جس سے پاکستان کے لیے صرف 100 سے 150 ملین ڈالر کی معمولی رقم بچتی ہے جو 2022 کے سیلاب میں ہونے والے اربوں ڈالر کے نقصان کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈان نیوز نے سول سوسائٹی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ کا نظام “سست، بیوروکریٹک اور غیر مؤثر” ہے۔منیلا میں ہونے والے ساتویں بورڈ اجلاس کے بعد، ‘فل دی فنڈ’ مہم نے اس عمل کو “انتہائی ناانصافی” قرار دیا۔
اداریے میں کہا گیا کہ فنڈ کا کئی ماہ پر محیط پروجیکٹ سائیکل اس کے بنیادی مقصد — یعنی 24 سے 48 گھنٹوں میں امداد کی فراہمی — کے سراسر منافی ہے۔حتیٰ کہ ورلڈ بینک کی عارضی میزبانی پر بھی سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ اس نے مزید شرائط، پیچیدگیاں اور شفافیت میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔
ڈان نیوز اداریہ کے مطابق یہ جمود دراصل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان گہری خلیج کو ظاہر کرتا ہے۔
امیر ممالک فنڈز دینے سے پہلے پیچیدہ فریم ورک پر اصرار کرتے ہیں، جبکہ متاثرہ ممالک فوری اور بلا مشروط امداد چاہتے ہیں۔وزیرِ موسمیات مصدق ملک کے الفاظ میں“گلوبل نارتھ اپنے بوجھ کو ترقی پذیر ممالک پر منتقل کر رہا ہے، اور ساتھ ہی ہمیں تعمیل کے لیکچر دے رہا ہے۔”
ڈان نیوز نے لکھا کہ یہ کھلا دوغلاپن ہے کہ جو ممالک ماحولیاتی بحران کے اصل ذمے دار ہیں، وہ اس کے نقصانات کی تلافی کے لیے اب بھی تیار نہیں۔یہاں تک کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے بھی واضح کیا ہے کہ یہ مدد خیرات نہیں بلکہ قانونی ذمہ داری ہے۔
آخر میں ڈان نیوز اداریہ خبردار کرتا ہے کہ اگر امیر ممالک نے فنڈ کو بھرا نہ اور اس کی راہ میں رکاؤٹیں نہ ہٹائیں تو ایف آر ایل ڈی ایک اور کاغذی وعدہ ثابت ہوگا
“یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ انسانیت کے وجودی خطرے کے باوجود، انصاف اب بھی کاغذوں میں ڈوب سکتا ہے۔”





