
ٹرمپ نے یوکرین جنگ پر روسی تیل پر ’زبردست پابندیاں‘ عائد کر دیں
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز روس کی دو سب سے بڑی تیل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دیں، یہ شکایت کرتے ہوئے کہ ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ان کی یوکرین جنگ ختم کرنے کی بات چیت کہیں نہیں جا رہی۔
یورپی یونین نے بھی روس پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی پابندیوں کا ایک سلسلہ متعارف کرایا ہے تاکہ وہ اپنے ہمسایہ ملک پر جاری ساڑھے تین سالہ حملہ ختم کرے جو واشنگٹن اور برسلز دونوں کا اتحادی ہے۔
ٹرمپ نے کئی ماہ تک روس پر پابندیاں لگانے سے گریز کیا، لیکن اس کا صبر اُس وقت جواب دے گیا جب بوداپیسٹ میں پوٹن کے ساتھ ایک نئے سربراہی اجلاس کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ تاہم ٹرمپ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ روسی تیل کی بڑی کمپنیوں “روسنیفٹ” اور “لوکوئل” پر لگائی گئی یہ ’’زبردست پابندیاں‘‘ زیادہ دیر نہیں چلیں گی۔انہوں نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک رُٹے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا”ہم امید کرتے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کی شام کہا کہ امریکہ اب بھی روسیوں سے ملاقات کے لیے تیار ہے، پابندیوں کے باوجود انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا اگر امن کے حصول کا کوئی موقع موجود ہو تو ہم ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار رہیں گے
اسی دوران،یورپی یونین نے بھی روس کی تیل و گیس آمدنی کو کم کرنے کے لیے نئے اقدامات کی منظوری دی، جیسا کہ ڈنمارک کی صدارت کے ایک ترجمان نے بتایا۔
یہ پیکیج جو 2022 میں کریملن کے حملے کے بعد یورپی یونین کی انیسویں پابندیوں کی قسط ہے روس پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے، خاص طور پر ٹرمپ کی ناکام امن کوششوں اور روسی جارحیت میں اضافے کے تناظر میں۔
یوکرین کی امریکہ میں سفیر اولگا اسٹیفانیشینا نے ان پابندیوں کا خیرمقدم کیا۔انہوں نے ایک بیان میں کہا”یہ فیصلہ یوکرین کے اس اصولی مؤقف کے عین مطابق ہے کہ امن صرف طاقت کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے، اور جارح ملک پر زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی دباؤ ڈال کر۔یہ پابندیاں روس کے تازہ ترین فضائی حملے کے چند گھنٹے بعد عائد کی گئیں، جس میں سات افراد ہلاک ہوئے — جن میں دو بچے بھی شامل تھے اور ایک کنڈرگارٹن کو شدید نقصان پہنچا۔
‘دیانت دار اور صاف گو نہیں’
امریکی پابندیاں روس کے خلاف واشنگٹن کے اقدامات میں ایک بڑا اضافہ ہیں اور یہ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتی ہیں، جو پوٹن کو جنگ ختم کرنے پر قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے کریملن سربراہ کے ساتھ ذاتی تعلقات اچھے ہیں۔
پابندیوں کے تحت روسنیفٹ اور لوکوئل کے تمام اثاثے امریکہ میں منجمد کر دیے گئے ہیں، اور تمام امریکی کمپنیوں کو ان دونوں روسی تیل کمپنیوں کے ساتھ کسی بھی کاروبار سے روک دیا گیا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے ایک بیان میں کہا:
صدر پوٹن کی جانب سے اس بے معنی جنگ کے خاتمے سے انکار کے پیشِ نظر، خزانہ روس کی دو سب سے بڑی تیل کمپنیوں پر پابندیاں لگا رہا ہے جو کریملن کی جنگی مشین کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔
انہوں نے بعد ازاں فاکس بزنس کے پروگرام کڈلو میں کہا کہ یہ روسی فیڈریشن کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی پابندیوں میں سے ایک ہے۔بیسنٹ نے مزید کہا کہ صدر پوٹن نے مذاکرات میں “دیانت دار اور صاف گو” طرزِ عمل نہیں دکھایا، اور ٹرمپ اس صورتحال پر مایوس ہیں۔
اس ہفتے ٹرمپ نے بوداپیسٹ میں پوٹن سے مجوزہ ملاقات منسوخ کر دی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ کوئی “فضول ملاقات” نہیں کرنا چاہتے۔
کریملن نے بدھ کے روز پابندیوں کے اعلان سے قبل یہ اشارہ دیا کہ ممکنہ سربراہی ملاقات کے لیے دروازہ اب بھی کھلا ہے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں سے کہا ہے کہ کوئی بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا — نہ صدر ٹرمپ اور نہ صدر پوٹن۔
یورپی یونین کی تیل و گیس پابندیاں
یورپی یونین کے نئے اقدامات کے تحت 27 ممالک کے اس بلاک نے روس سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد پر پابندی ایک سال پہلے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا — جو اب 2027 کے آغاز میں لاگو ہو گی۔
اس کے علاوہ یورپی یونین نے ماسکو کے نام نہاد “شیڈو فلیٹ” (پرانی تیل بردار جہازوں) میں شامل 100 سے زائد ٹینکروں کو بلیک لسٹ کر دیا، اور ان روسی سفارتکاروں کے سفر پر پابندیاں لگائیں جن پر جاسوسی کے شبہے ہیں۔
یہ نیا پیکیج جمعرات کو باضابطہ طور پر منظور کیا جائے گا، اس سے قبل کہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی برسلز میں یورپی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کریں۔
زیلنسکی نے بدھ کے روز سویڈن کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا، جس کے تحت یوکرین 150 گرِپن لڑاکا طیارے حاصل کرے گا۔
روس کے تازہ فضائی حملوں کے دوران، اے ایف پی کے صحافیوں نے کیف میں روسی ڈرونز کی آوازیں اور رات بھر دھماکے سنے، اور دارالحکومت کے اوپر دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے۔
کیف کی رہائشی ماریانا گورچینکو نے اے ایف پی کو بتایا میرے ہاتھ ابھی بھی کانپ رہے ہیں۔ میں اچھل کر اٹھی — خوش تھی کہ میرا بچہ اُس کمرے میں نہیں تھا جہاں کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ان حملوں سے یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف کے ایک کنڈرگارٹن کو بھی نقصان پہنچا۔