اسلام آباد: حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے جاری مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے پیر کو کہا کہ اگر پی ٹی آئی منگل کو ہونے والے مذاکرات کے چوتھے دور میں شرکت نہیں کرتی تو کمیٹی کو ختم کر دیا جائے گا۔
تاہم، حکومتی کمیٹی ہرصورت ان کیمرہ اجلاس میں شریک ہوگی جو آج اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پیر کے روز وزیراعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی اور انہیں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن پی ٹی آئی مذاکرات میں شریک ہونے سے ہچکچا رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے پی ٹی آئی کو کہا ہے کہ وہ مذاکرات میں شامل ہو تاکہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور سیاسی قیدیوں کی رہائی جیسے اہم معاملات میں پیش رفت ہو سکے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت حکومت کو پی ٹی آئی کے مطالبات پر جواب دینے کے لیے سات دن دیے گئے تھے۔ حکومت نے اپنے جوابات تیار کر لیے ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کو اجلاس میں آنا چاہیے تاکہ اگر حکومت کے جوابات پر انہیں کوئی اعتراض ہو تو اس پر بات چیت کی جا سکے اور مسائل کو حل کیا جا سکے۔ لیکن اگر پی ٹی آئی اجلاس میں شریک نہیں ہوتی تو یہ جوابات عوام کے سامنے نہیں لائے جائیں گے۔
دوسری جانب، وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ مذاکرات سے گریز غیر جمہوری رویہ ہے جو ملک میں جاری سیاسی تناؤ میں مزید اضافے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا ۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو اس وقت ایجی ٹیشن اور لڑائی جھگڑے کی نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو مضبوط کیا جا سکے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے۔
دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) آج ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔ پارٹی نے اس سے قبل کہا تھاکہ وہ اجلاس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک حکومت 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے مظاہروں کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیتی۔
بعد میں پی ٹی آئی نے اپنے موقف میں تھوڑی نرمی دکھائی اور کہا کہ اگر حکومت 28 جنوری تک عمران خان سے ملاقات کا انتظام کرتی ہے تو وہ اجلاس میں شرکت کر سکتی ہے۔ لیکن چونکہ حکومت نے اس مطالبے کا کوئی جواب نہیں دیا، اس لیے پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دروازے بند کر دیے۔
دوسری طرف، پی ٹی آئی نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ میں ہونے والی متنازعہ تبدیلیوں کے خلاف صحافیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے صحافیوں سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ ان ترامیم کی مخالفت کریں گے کیونکہ وہ انسانی حقوق کے خلاف ہیں اور ان میں بہت ساری غلطیاں ہیں۔