
Is the government going to close the Utility Stores Corporation?
پاکستان میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام 1971 میں عمل میں آیا جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقے کو اشیا خوردنوش کی قیمتوں میں ریلیف دینا تھا ۔ شروع میں یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے صرف بیس اسٹورز تھے لیکن 53 سالوں میں ان اسٹورز کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا اور یہ ملک کے کونے کونے تک پھیل گئے۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ یہاں غریب طبقے کو اشیا خوردو نوش حفطان صحت کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور بازار سے سستے داموں فروخت کی جائیں گی ، لیکن صارفین ہمیشہ شکایت کرتے آرہے ہیں کہ یہاں دستیاب اشیا خوردو نوش کا معیار بازار کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مہینے کی اوائل تاریخوں میں خاص کررمضان میں یہاں گاہکوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ادارے کے قیام سے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو کسی حد تک ہی سہی لیکن فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے۔
لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے اس ادارے کو بند کرنے کی خبریں زیر گردش ہیں اور اس کے نتیجے میں یوٹیلٹی ملازمین نے کئی بار دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کیا ہے اور یہاں دھرنا بھی دیا ہے ۔ اس کے علاوہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن میں بے ضابطگیوں کی بھی کئی خبریں سامنے آئی ہیں جیسا کہ 2020-19 میں سٹورز کے آڈٹ میں بڑی بے ضابظگیاں سامنے آئی تھیں جن میں انکشاف ہوا تھا کہ یوٹیلٹی سٹورز میں 42 ریجنز میں تقریبا دس ہزار ملازمین کام کررہے ہیں یعنی مقررہ حد سے تقریبا 2100 ملازمین زیادہ کام کررہے تھے۔
حال ہی میں مسلم لیگ نون کی حکومت ایک بار پھر اس ادارے کو مکمل طور پر بند کرنے کے منصوبے پر غور کررہی ۔ حکومت نے وزیر صنعت و پیداوار کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو اگلے سات دنوں میں یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کرنے کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی تیار کرے گی۔
کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین کو فیڈرل سرپلس پول میں شامل کیا جائے یا دیگر محکموں کی خالی آسامیوں پر منتقل کیا جائے۔ ساتھ ہی، کارپوریشن کی جائیدادیں اوراثاثے فروخت کیے جائیں تاکہ حکومت کے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن، جو گزشتہ 53 سال سے عوام کو سبسڈی پر اشیاء فراہم کر رہی تھی، اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ شہری علاقوں کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سبسڈی والے گروسری نیٹ ورک کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچانا مشکل ہو گیا ہے۔ مزید برآں، بدانتظامی اور کرپشن کے الزامات نے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی نجکاری کی ضرورت کو مزید واضح کر دیا ہے۔
یہ اقدامات حکومت کے اس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت غیر ضروری عوامی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ ملازمین کی منتقلی اور اثاثوں کی فروخت کا عمل کس حد تک شفاف اور مؤثر ہوگا۔
حکومت کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ کسی صورت آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کم آمدنی والے لوگ کھانے، صحت، تعلیم، اور دیگر ضروری اخراجات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ رمضان قریب ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے غریب طبقے کو ریلیف دینے کے لیے فوری اقدامات اٹھانا ایک بڑا چیلنج ہوگا ۔ کیونکہ 18ویں ترمیم کے بعد، یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو معاشی ریلیف فراہم کریں۔ لیکن بدقسمتی سے، اب تک کسی بھی صوبے نے کم آمدنی والے افراد کی مدد کے لیے کوئی پائیدار منصوبہ نہیں بنایا۔ رمضان بازاروں اور سبسڈی کے نام پر ہر سال اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، مگر یہ مؤثر اور دیرپا حل نہیں ہے۔
پنجاب حکومت کے “ماڈل بازار” جیسے منصوبے اس صورت حال میں ایک اچھا قدم ہو سکتے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکام ایک ایسا نظام بنائیں جس سے عوام کو اشیا خوردو نوش بازار سے کم قیمت پر دستیاب ہوں اور جن کے معیار پر بھی کوئی سمجھوتہ نہ ہو اور نہ ہی سرکاری خزانے پر زیادہ بوجھ پڑے۔
معصومہ زہرا
ڈان سے ماخوذ