اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) باخبر ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ فنڈز اکٹھا کرنے کی کوشش میں ایران نے چین میں ذخیرہ کرنے والی جگہ سے تقریباً 30 لاکھ بیرل تیل نکلوا کر روانہ کیا ہے۔ یہ تیل کم از کم 25 ملین بیرل کے اس ذخیرے کا حصہ ہے جو ایران نے 2018 کے آخر میں چین کو بھیجا تھا۔ ایران کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد کرنے سے ممالک کو ایران کو تیل برآمد کرنے سے روک دیا جائے گا۔
اس تیل کے ذریعے اکٹھا ہونے والے فنڈز مشرق وسطیٰ میں ایران کے اتحادی مسلح گروہوں کی مدد کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ذرائع نے کہا ہے کہ چین نے گزشتہ ماہ نومبر اور دسمبر کے آخر میں ایرانی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد اس تیل کی واپسی اور ترسیل کی منظوری دی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایران نے تیل نکالنے اور فروخت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بیجنگ نے ایسا کرنے کی پہلی مرتبہ گرین لائٹ دی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ صورت حال سے آگاہ نہیں ہیں لیکن انہوں نے کہا ہے کہ بیجنگ بین الاقوامی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ایران سمیت تمام ممالک کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ چین امریکہ کی طرف سے غیر قانونی اور غیر معقول یکطرفہ پابندیوں کے غلط استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔
واضح رہے تیل سے حاصل ہونے والی یہ اضافی آمدنی ایران کے لیے اس وقت میں اہم ہے کیونکہ وہ خطے میں حماس اور حزب اللہ جیسے اپنے اتحادی گروپوں کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان اتحادی گروپوں کو اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں شدید نقصان پہنچا ہے۔
شام میں بشار الاسد حکومت کا زوال ایران کے لیے ایک اور دھچکا تھا کیونکہ بشارحکومت کے جانے سے لبنان میں حزب اللہ تک ہتھیاروں کی براستہ شام ترسیل رک گئی ہے۔ یہ وقت اس لیے بھی اہم ہے کہ ان دنوں ایران کو افراط زر کی بلند شرح اور سست ترقی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
چین کی جانب سے ایران کو تیل بھیجنے کی اجازت دینے کے فیصلے سے واشنگٹن کے ساتھ چین کا تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار میں ایرانی تیل کی فروخت روکنے کے لیے سخت اقدامات کی طرف گئے تھے۔
یاد رہے ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم نے کہا ہے کہ وہ 20 جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد زیادہ سے زیادہ دباؤ والی مہم میں واپس آئیں گے۔ ایرانی تیل کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر چین سے بھی یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس ضمن سے اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ چیز ٹرمپ کو مجبور کرے گی کہ وہ بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے ترجیحات کا تعین کریں۔