یمن میں کشتی ڈوبنے سے 49 تارکین وطن ہلاک
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی نے کہا ہے کہ یمن کے قریب 200 سے زائد تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں کم از کم 49 افراد جان کی بازی ہار گئے، مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے بتایا کہ پیر کو جنوبی صوبے شبوہ کے قریب 260 افراد کو لے جانے والی کشتی کے الٹنے سے کم از کم 49 تارکین وطن ڈوب گئے اور 140 کے قریب لاپتا ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ مرنے والوں میں 31 خواتین اور 6 بچے شامل ہیں،ابتدائی طور پر 115 صومالی شہری اور 145 ایتھوپیائی اس کشتی پر سوار تھے۔
آئی او ایم نے بتایا کہ آپریشنل پیٹرول کشتیوں کی کمی کی وجہ سے اہم چیلنجوں کے باوجود تلاش اور ریسکیو کی کارروائیاں جاری ہیں، اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ کشتی اتوار کی صبح 3 بجےکے قریب صومالیہ کے بوساسو سے روانہ ہوئی۔
ہر سال ہارن آف افریقہ سے کئی ہزار تارکین وطن تنازعات، قدرتی آفات یا ناقص معاشی امکانات سے بچ کر تیل سے مالا مال خلیج ریاستوں تک پہنچنے کے لیے بحیرہ احمر کے اس پار روانہ ہوتے ہیں، صرف 2023 میں آئی او ایم نے یمن میں 97 ہزار 200 سے زیادہ تارکین وطن کی آمد کا مشاہدہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق اپریل میں جبوتی کے ساحل پر 2 کشتیاں ڈوبنے سے صرف دو ہفتوں کے درمیان کم از کم 62 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے منگل کو کہا کہ اس نے 2014 سے اب تک نقل مکانی کے راستے میں ایک ہزر 860 تارکین وطن کی موت اور لاپتا ہونے کے واقعات ریکارڈ کیے ہیں، جن میں ڈوبنے والے 480 لوگ بھی شامل ہیں، ایجنسی کے ترجمان محمد علی ابوناجیلا نے کہا کہ تازہ ترین سانحہ ہجرت کے فوری چیلنجوں سے نمٹنے اور نقل مکانی کے راستوں پر تارکین وطن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی فوری ضرورت کی ایک اور یاد دہانی ہے۔
وہ تارکین وطن جو کامیابی سے یمن پہنچ جاتے ہیں انہیں اکثر اپنی حفاظت کے لیے مزید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک ایک دہائی سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔
بہت سے لوگ سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ممالک پہنچنے کی کوشش کر تے ہیں جہاں وہ مزدور یا گھریلو ملازم کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
اگست میں، ہیومن رائٹس واچ نے سعودی سرحدی محافظوں پر مارچ 2022 اور جون 2023 کے درمیان یمن سے خلیجی ریاست میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے سیکڑوں ایتھوپیائیوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا تھا، تاہم ریاض نے گروپ کے نتائج کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔