افغانستان کی پہلی خاتون اولمپیئن نے طالبان کے لیے پیرس گیمز پر پابندی کا مطالبہ کردیا
فریبا رضائی اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ہیں، طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے خوفزدہ ہیں اور اب وہ ملک کو پیرس گیمز سے باہر رکھنے کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔
ایتھنز میں 2004 کے اولمپکس میں حصہ لینے والی فریبا رضائی نے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) سے طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے افغانستان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے وضاحت دی ہے کہ ایسی پابندی کے تحت، افغان خواتین کو اب بھی آئی او سی کی پناہ گزین اولمپک ٹیم میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔
فریبا رضائی، جو اب وینکوور میں رہتی ہیں نے طالبان کے بارے میں کہا کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ ان کے وحشیانہ سلوک کے بارے میں بہت سارے شواہد کے پیش نظر انہوں نے کہا کہ وہ بہت خطرناک ہیں۔”
“اگر IOC انہیں 2024 میں پیرس میں یورپ کے مرکز میں اولمپکس میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے، تو یہ لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔”
جبکہ طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
طالبان ، جو کہتے ہیں کہ وہ اسلامی قانون اور مقامی رسوم و رواج کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں ،نے لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کر دیے ہیں اور خواتین پر مرد سرپرست کے بغیر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں اور پارکوں اور جموں تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔
میکلیوڈ نے کہا کہ اس وقت آئی او سی افغانستان کی قومی اولمپک کمیٹی (این او سی) اور کھیلوں کے حکام کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا جس کا مقصد “افغانستان میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے لیے کھیلوں تک رسائی پر موجودہ پابندیوں کو تبدیل کرنا ہے”۔