
واشنگٹن — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک اعلان کرتے ہوئے H-1B ویزے کے لیے درخواست پر $100,000 کی بھاری فیس عائد کر دی۔ یہ ویزا دنیا بھر سے ہنر مند افراد کے لیے امریکہ کی ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ صنعتوں میں ملازمت کا سب سے بڑا راستہ سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سے امریکی کمپنیوں پر سالانہ تقریباً $14 ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا اور دنیا بھر میں لاکھوں ہنر مند افراد متاثر ہوں گے۔
فیصلہ کیوں لیا گیا؟
امریکی حکام کے مطابق، گزشتہ برس 141,000 نئے H-1B ویزے جاری کیے گئے تھے۔ اگر یہی شرح برقرار رہی تو نئی فیس کے باعث امریکی کمپنیوں کو مجموعی طور پر $14 ارب سالانہ ادا کرنا پڑے گا۔ امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (USCIS) کے مطابق 2023 میں تقریباً 400,000 درخواستیں منظور کی گئی تھیں، جن میں زیادہ تر ویزوں کی تجدید شامل تھی۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد امریکی کمپنیوں کو “امریکی شہریوں کو روزگار دینے پر مجبور کرنا” ہے۔ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کچھ خاص استثنیٰ دیے جائیں گے، لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ استثنیٰ کتنے وسیع پیمانے پر لاگو ہوں گے۔
قانونی جنگ کی تیاری
بڑی امریکی کمپنیوں کے وکلاء نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ میتھیو ڈَن، جو ہر برٹ اسمتھ فری ہلز کریمر کے پارٹنر ہیں، کا کہنا ہے:
“انتظامیہ کے پاس H-1B پروگرام چلانے کی لاگت پوری کرنے کے لیے فیس بڑھانے کا اختیار ہے، لیکن $100,000 جیسی بھاری رقم ان کے اختیارات سے بالکل باہر ہے۔”
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالت سے اس فیصلے پر پابندی لگوانے کے امکانات “انتہائی زیادہ” ہیں۔
فی الحال صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو پہلے ہی 135 سے زیادہ قانونی مقدمات کا سامنا ہے، جن میں سے کچھ ان کی جانب سے تجارتی شراکت داروں پر لگائی گئی بلاک ٹیرف سے متعلق ہیں، جنہیں زیریں عدالتوں نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس پر فیصلہ زیرِ التوا ہے۔
سیاسی ردِعمل اور تضادات
دلچسپ امر یہ ہے کہ ٹرمپ کے کئی بڑے اتحادی اس پروگرام کے حامی رہے ہیں۔ ان میں ان کے سب سے بڑے ڈونر ایلون مسک شامل ہیں، جبکہ سابق وائٹ ہاؤس اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن نے اس پروگرام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ امریکی شہریوں کے روزگار کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
سابق اقتصادی مشیر اور موجودہ IBM کے نائب چیئرمین گیری کوہن نے اس فیصلے کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا:
“کمپنی اب صرف انہی افراد کے لیے ویزا مانگیں گی جو واقعی اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں اور جنہیں امریکہ کے اندر سے نہیں بھرتی کیا جا سکتا۔”
کن ممالک پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا؟
اعداد و شمار کے مطابق:
- بھارت: H-1B ویزا ہولڈرز میں سب سے بڑی تعداد بھارتی شہریوں کی ہے، جو تقریباً 70 فیصد ہے۔ اس فیصلے کا سب سے بڑا جھٹکا بھارتی آئی ٹی کمپنیوں اور انجینئرز کو لگے گا۔
- چین: دوسرے نمبر پر چینی پروفیشنلز ہیں جو ریسرچ، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبوں میں زیادہ آتے ہیں۔
- پاکستان: ہر سال ہزاروں پاکستانی انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور ڈاکٹرز H-1B ویزے کے تحت امریکہ جاتے ہیں۔ اس اضافی لاگت سے ان کی راہ مزید مشکل ہو جائے گی۔
- فلپائن، میکسیکو اور ویتنام: نرسنگ اور ہیلتھ کیئر سیکٹر میں بڑی تعداد انہی ممالک کے شہریوں کی ہے، جو اب متاثر ہوں گے۔
- یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرینِ انجینئرنگ اور مالیاتی پروفیشنلز بھی اس فیصلے سے متاثر ہوں گے، لیکن سب سے زیادہ نقصان ایشیائی ممالک کو ہوگا۔
مستقبل کی تبدیلیاں
ٹرمپ انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ H-1B اسکیم میں مزید تبدیلیاں لائے گی، جن میں ویزا کی منظوری کے لیے تنخواہ کے معیار کو بلند کرنا بھی شامل ہے۔ ریپبلکن قانون ساز چاہتے ہیں کہ ویزے لاٹری کے بجائے “سب سے زیادہ تنخواہ” کی بنیاد پر تقسیم کیے جائیں۔
کمپنیاں اب L-1 ویزا جیسے متبادل پروگرامز پر غور کر رہی ہیں، جو مینیجرز اور “خصوصی مہارت رکھنے والے” ملازمین کے لیے ہے، لیکن اس کے تقاضے زیادہ سخت ہیں کیونکہ اس کے لیے ملازم کا کم از کم ایک سال بیرونِ ملک ملازم رہنا ضروری ہے۔
ٹرمپ کا اچانک فیصلہ امریکی کمپنیوں، خصوصاً ٹیک سیکٹر، کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس کا موقف ہے کہ یہ امریکی شہریوں کے لیے مزید ملازمتیں پیدا کرے گا، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے برعکس اثرات مرتب ہوں گے، سرمایہ کاری دوسرے ممالک کی طرف جائے گی، اور امریکہ کی جدت طرازی کی دوڑ کمزور پڑے گی۔