نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ گوانتانامو بے میں ایک نیا امیگریشن حراستی مرکز بنایا جائے گا، جہاں 30,000 غیر قانونی تارکین وطن کو رکھنے کی گنجائش ہوگی۔
ٹرمپ کے مطابق، یہ حراستی مرکز ان “غیر قانونی مجرموں” کے لیے ہوگا، جو “امریکی عوام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ مرکز امریکی بحریہ کے اڈے پر بنایا جائے گا، لیکن اسے گوانتانامو بے کی اعلیٰ سیکیورٹی والی فوجی جیل سے الگ رکھا جائے گا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکہ میں غیر قانونی امیگریشن پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی کوسٹ گارڈ کے ذریعے سمندر میں پکڑے جانے والے تارکین وطن کو سیدھا گوانتانامو منتقل کیا جائے گا۔ وہاں انہیں رکھنے کے لیے سخت حفاظتی اصولوں پر عمل کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے امیگریشن چیف ٹام ہومن نے تصدیق کی ہے کہ اس مرکز کو مزید توسیع دی جائے گی اور اسے امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے تحت چلایا جائے گا۔
گوانتانامو بے میں پہلے بھی غیر قانونی تارکین وطن کو رکھا جاچکا ہے، جس پرانسانی حقوق کی کئی تنظیمیں تنقید کرتی آرہی ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو جیلوں میں رکھنے کے بجائے ان کے لیے بہتر حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
صدر ٹرمپ نے امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لینے کے لیے “لیکن ریلی ایکٹ” پر دستخط کیے ہیں، جس کے مطابق:
غیر دستاویزی تارکین وطن جو چوری یا پرتشدد جرائم میں ملوث ہوں گے، انہیں اس وقت تک جیل میں رکھا جائے گا جب تک کہ ان کا مقدمہ مکمل نہ ہو جائے۔ اس بل کا نام ایک 22سالہ امریکی نرسنگ طالبہ کے نام پر رکھا گیا ہے، جسے گزشتہ سال ایک وینزویلا کے تارک وطن نے قتل کیا تھا۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں غیر قانونی امیگریشن ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ تاہم، اس نئے منصوبے پر سخت تنقید ہو رہی ہے، اور اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی عوام اور کانگریس اس متنازع فیصلے پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔
کیوبا کی حکومت کا سخت ردعمل
کیوبا نے اس منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوانتانامو بے پہلے ہی امریکہ کے غیر قانونی قبضے میں ہے اور وہاں تارکین وطن کو رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ کیوبا نے امریکہ پر “غیر قانونی حراست اور تشدد” کا الزام لگاتے ہوئے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی ہے۔