
سائنسی تحقیق میں فراڈ کا بڑھتا ہوا رجحان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) انٹر نیشنل ڈائریکٹری آف اوپن سائنس جرنلز کے مطابق سنہ 2023 میں 9 ملین سے زائد سائنسی مقالا جات شائع ہوئے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023 میں گلوبل سکالری جرنل پبلشنگ مارکیٹ میں ایک اعشاریہ پچانوے بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ توقع ہے کہ 2027 تک یہ رقم تین اعشاریہ ایک بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے سالانہ بجٹ میں سائنسی تحقیق کے لئے خاص فنڈز مختص کرتے ہیں جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سائنسی تحقیق میں کافی تیزی آئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سائنس پیپرز کی اشاعت میں فراڈ کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
سپرنگر سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق 2023 میں شائع ہونے والے 50 پئیر ریویوڈ (ہم مرتبہ تجزیہ شدہ) سائنس پیپرز کا جدید تکنیک سے کئی بار جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ ان میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے لفظی ہیرا پھیری کی گئی تھی۔
نیچر سائنس جرنل کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس بہت سے شائع شدہ سائنس پیپرز کا دوبارہ تجزیہ کر کے انھیں اشاعت سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ لیکن 2023 میں ایسے دس ہزار پیپرز خارج کئے گئے۔
اس مسئلے پر عالمی سطح پر بحث کا آغاز 2023 کے وسط میں ہوا جب تحقیقی بد انتظامی کے الزامات کا سامنا کرنے پر سٹینفورڈ یونیورسٹی کے صدر مارک ٹیسئیے لیوین کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ اگرچہ مارک پر تحقیقی بد انتظامی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے مگر نیورو سائنس سے متعلق ایسے پانچ ریسرچ پیپرز میں سنگین خامیاں سامنے آئی تھیں جن کے وہ مرکزی مصنف تھے۔
سائنسی مقالوں میں اس بد انتطامی کو سامنے لانے پر سٹینفورڈ یونیورسٹی کے اخبار “سٹینفورڈ ڈیلی” کے انویسٹیگیٹو ایڈیٹر تھیوبیکر (Theo Baker)کو “جارج پولک جرنلزم ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر سے بڑھتے ہوئے اشاعتی فراڈ کی آوازیں زور پکڑتی گئیں۔
دسمبر 2023 میں نیچر سائنس جنرل میں ایسے ممالک کی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جن کی تحقیق اشاعت کے بعد ہٹا دی جاتی ہیں۔ اس فہرست کے مطابق 2023 میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مقالے شائع ہونے کے بعد خارج کیے گئے تھے جن میں پہلے نمبر پر سعوی عرب اور دوسرے نمبر پر پاکستان کے محققین کے پیپرز تھے۔ جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
ڈاکٹر نیئر عالم سینئر محقق اور جیولوجسٹ ہیں انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سائنسی پیپرز کی اشاعت طلباء اور سائنس دانوں کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ بہت سی بین الاقوامی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں طلباء کے داخلے اور سائنسدانوں کی ترقی کے لیے جو معیار مقرر ہیں ان میں شائع شدہ پیپرز کی ایک مخصوص تعداد کا ہونا ضروری ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی جامعات میں بین الاقوامی سطح کی تحقیق کا فقدان ہے۔ ایک تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس زیادہ بجٹ نہیں ہے کہ وہ تحقیق کو سپانسر کرے دوسرے لیباٹریوں میں جدید آلات و سہولیات کا بھی فقدان ہے۔
ان کے مطابق ایک تیسری بڑی وجہ انگریزی زبان میں سائنس لکھنے کی صلاحیتوں کی کمی ہے۔ طلباء کو جامعات میں سائنسی مقا لاجات لکھنے کی کوئی خاص تربیت نہیں دی جاتی۔ لہذا وہ جعلی تحقیق یا پیپر ملز جیسے ذرائع کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ پیپرز بعد ازاں اشاعت سے خارج کر دیے جاتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔