
لاہور میں اسموگ کی واپسی،ماحولیاتی بحران کا خطرہ،ڈان کا اداریہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) یہ اداریہ روزنامہ ڈان (ڈان نیوز) میں شائع ہوا ہے جو پاکستان کے معتبر ترین انگریزی اخبارات میں شمار ہوتا ہے۔ ڈان نے اس بار اپنی تحریر میں ایک نہایت اہم اور موسمی مسئلے لاہور اور پنجاب میں بڑھتی ہوئی اسموگ کو موضوع بنایا ہے، جسے اخبار نے ایک “صحت اور ماحولیاتی بحران” قرار دیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق جیسے جیسے درجہ حرارت میں کمی آتی ہے، ملک کے کئی حصوں میں خصوصاً لاہور اور شہری پنجاب میں اسموگ ایک ناپسندیدہ مہمان بن کر لوٹ آتی ہے۔ یہ بحران کئی برسوں سے شدت اختیار کر رہا ہے، اگرچہ ریاست نے — سول سوسائٹی اور ماحولیاتی ماہرین کے دباؤ پر — اب کچھ عملی اقدامات شروع کیے ہیں۔
اخبار نے عالمی اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ آئی کیو ایئر کے ڈیٹا کے مطابق، منگل کے روز لاہور اور کراچی دونوں دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل تھے، جن کی ہوا کو “انتہائی غیر صحت مند” قرار دیا گیا۔ ڈان لکھتا ہے کہ جیسے جیسے سردی بڑھتی ہے، اسموگ کی شدت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ڈان نیوز نے ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ لاہور کی فضا کی خرابی میں مقامی عوامل کے ساتھ ساتھ بھارت کی سرحد پار سے آنے والے آلودہ ذرات بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر دیوالی کے موقع پر بھارت میں چلائے جانے والے پٹاخوں نے آلودگی میں اضافہ کیا ہے۔ اخبار کے مطابق، بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں آتش بازی پر عائد پابندی میں نرمی کرتے ہوئے “گرین فائرکریکروں” کی اجازت دی تھی، جس کے اثرات پنجاب تک محسوس کیے گئے۔
ڈان لکھتا ہے کہ پنجاب حکومت نے فضا کی صفائی کے لیے اینٹی اسموگ گنز نصب کی ہیں، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے اخراج کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، اور فصلوں کی باقیات جلانے والوں کو گرفتار کیا ہے۔ مزید یہ کہ شہریوں کو ماسک پہننے اور کھڑکیاں بند رکھنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔
اخبار کے مطابق یہ اقدامات گزشتہ سال کے تلخ تجربے کے بعد ناگزیر تھے، کیونکہ پچھلے موسمِ سرما میں لاہور نے اپنی تاریخ کی بدترین آلودگی دیکھی۔ تاہم، ڈان اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ حکومتی اقدامات کوئی نمایاں بہتری لا سکیں گے یا نہیں۔
ڈان نیوز نے اپنی تجویز میں لکھا ہے کہ صرف عارضی احتیاطی تدابیر کافی نہیں — ضروری ہے کہ کاربن اخراج میں کمی، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ، اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام میں وسعت کو پالیسی سطح پر ترجیح دی جائے۔ اخبار کے مطابق، ماہرین مشینی کھاد ساز کے استعمال کی بھی سفارش کرتے ہیں تاکہ کسان فصلوں کی باقیات جلانے کے بجائے انہیں کھاد میں بدل سکیں۔
ڈان نے یہ بھی واضح کیا کہ آلودگی محض مقامی نہیں بلکہ ایک سرحد پار مسئلہ ہے۔ لاہور میں منعقدہ “ایئر وی بریف” کانفرنس کے حوالے سے اخبار لکھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ پاکستان اکیلا فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔
اداریے کے آخر میں ڈان نیوز نے زور دیا کہ بھارت کے شمالی علاقوں میں چلائے گئے پٹاخوں سے پنجاب کی فضا متاثر ہونا اس بات کی تازہ مثال ہے کہ گندی ہوا سرحد نہیں پہچانتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ دونوں ممالک کو اختلافات سے بالاتر ہو کر فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی پر تعاون کرنا چاہیے۔
ڈان کے الفاظ میں گندی ہوا کسی سرحد کو نہیں جانتی، اور صرف ڈیٹا کے تبادلے اور بہترین طریقہ کار کے ذریعے ہی جنوبی ایشیا زہریلی فضا کے اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔
آخر میں ڈان نیوز نے تجویز دی کہ پاکستان کو مقامی سطح پر ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا تاکہ عوام کو اس زہریلی اسموگ سے محفوظ رکھا جا سکے، کیونکہ عوامی صحت اور ماحولیات پر سمجھوتہ کسی صورت ممکن نہیں۔