Friday, July 5, 2024
Top Newsکیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیر اعظم کو غدار...

کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیر اعظم کو غدار مان لیں: جسٹس جمال مندوخیل

کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیر اعظم کو غدار مان لیں: جسٹس جمال مندوخیل

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے نو مئی کے واقعات کے تناظر میں تھانہ نیو ٹاؤن میں درج مقدمے میں پانچ ملزمان کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے۔ ملزمان اویس، سیف اللہ، نصراللہ، کامران اور وقاص پر راولپنڈی میں واقع حمزہ کیمپ پر حملے اور توڑپھوڑ کا الزام ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو معاملے کی سماعت کی۔ جسٹس مندوخیل کے علاوہ بینچ میں جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کیا ریلی نکالنا یا سیاسی جماعت کا کارکن ہونا جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ہی آج یہ بربادی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفشیش پر سرزنش کی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ ملزمان کے خلاف کیا شواہد ہیں اور کیا سی سی ٹی وی کیمروں سے شناخت ہوئی جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ کیمپ سمیت دیگر مقامات کے کیمرے مظاہرین نے توڑ دیے تھے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں صرف پولیس کے بیانات ہیں۔ اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ سی سی ٹی کیمروں کی ریکارڈنگ محفوظ ہوتی ہے اور لوگ تو موبائل سے بھی ویڈیو بناتے ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات کیوں لگائی گئی ہیں جس پر پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان نے آئی ایس آئی کے کیمپ پر حملہ کیا۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’آپ کو پھر علم ہی نہیں کہ دہشتگردی ہوتی کیا ہے۔ دہشتگردی سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور کوئٹہ کچہری میں ہوئی تھی، ریلیاں نکالنا کہاں سے دہشتگردی ہو گئی؟‘

جسٹس ہلالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مقدمے کی ایف آئی آر میں تو آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے کا ذکر ہی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حساس تنصیبات تو بہت سی ہوتی ہیں۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی اس مقدمے میں گواہ ہے جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ’واقعہ راولپنڈی کا ہے اور گواہ لاہور کا؟‘۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟‘ان کا کہنا تھا کہ ’خدا کا خوف کریں، یہ کس طرف جا رہے ہیں‘۔ جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ پولیس گواہی کے علاوہ کوئی ثبوت ہی موجود نہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا حکومت کیخلاف ٹائر جلانا بہت بڑا جرم ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور ریاست عوام کے لیے ماں باپ کی اہمیت رکھتے ہیں اور بچوں کو ماں، باپ دو تھپڑ مار بھی دیں تو بعد میں منا لیتے ہیں قتل نہیں کرتے۔

ملزمان کے وکیل سردار عبدالرزاق نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان اپنی دکانیں بند کر کے جا رہے رھے راستے میں پھنس گئے۔ بینچ نے سربراہ نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ گرفتاری سے پہلے ملزمان کے نام کیسے معلوم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سارے کیس کا پولیس خود ستیاناس کر دیتی ہے۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ملزمان سے پٹرول بم برآمد ہوئے ہیں اور فائرنگ کا بھی الزام ہے جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ ’پٹرول بم کون، کہاں سے لایا۔ گھر سے تو کوئی لا نہیں سکتا، تفتیش کیا کہتی ہے؟‘ جواب میں پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ تفتیش میں یہ پہلو سامنے نہیں آیا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ملزمان پر فائرنگ کا بھی الزام ہے مگر کوئی اسلحہ برآمد ہوا نہ پولیس زخمی ہوئی۔

سماعت کے بعد عدالت نے پانچوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست 50، 50 ہزار کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔

دیگر خبریں

Trending

غزہ میں جنگ بندی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے، سعودی...

0
غزہ میں جنگ بندی کے اثار دکھائی نہیں دے رہے، سعودی وزیر خارجہ اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک):سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان...