
Politics of boycott
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی اور صرف خیبرپختونخوا میں حصہ لے گی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔
یہ فیصلہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کیا، حالانکہ پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے اکثریتی رائے سے انتخابات میں حصہ لینے کی حمایت کی تھی ، مگر عمران خان نے کمیٹی کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے براہِ راست بائیکاٹ کا حکم دیا اس کے بعد کمیٹی کے پاس اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ اس فیصلے نے پارٹی کے اندر جمہوریت اور سینئر قیادت کے عملی کردار پرکئی سوالات کو جنم دیا۔
پی ٹی آئی نے نہ صرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں شرکت سے انکار کیا ہے بلکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رکنیت بھی چھوڑ دی ہے، حالانکہ اسی فورم پر وہ حکومتی اخراجات اور احتساب کے حوالے سے مؤثر کردار ادا کر سکتی تھی۔
پاکستانی سیاست میں احتجاج کے طور پر واک آؤٹ یا وقتی بائیکاٹ عام بات ہے، لیکن موجودہ دور میں بائیکاٹ معمول بنتا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی کا تقریباً مستقل بائیکاٹ کرنے اور عمارت سے باہر متوازی اسمبلی قائم کرنے کا بھی سوچ رہی ہے اور یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ پارٹی دوبارہ اسمبلیوں سے استعفے بھی دے سکتی ہے، جیسا کہ انہوں نے 2022 میں کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے کئی شکوے جائز ہیں، جیسے کہ انتخابات 2024 کے نتائج پر اعتراض اور عمران خان و شاہ محمود قریشی سمیت کئی رہنماؤں کی طویل جیل کیونکہ عمران خان کو جیل میں دو سال ہو گئے ہیں اور شاہ محمود بھی تقریباً اتنے ہی عرصے سے قید ہیں۔ ایسے حالات میں اگر پارٹی احتجاج کرتی ہے تو اسے ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن مسئلہ تب بڑھتا ہے جب احتجاج سڑکوں پر ہو اور عوام کی روزمرہ زندگی، تعلیمی ادارے اور کاروبار متاثر ہوں۔ اگر پی ٹی آئی یقین دہانی کرائے کہ احتجاج پُرامن ہوگا اور عوامی زندگی میں خلل نہیں ڈالے گا تو اسے احتجاج کا حق دینا مناسب ہوگا۔
ایک اور افسوسناک صورتحال جس کا پاکستانی سیاست کو سامنا ہے وہ یہ کہ ، ماضی میں ایمرجنسی یا قومی بحران میں مخالف سیاسی جماعتیں اکٹھی بیٹھتی تھیں، مگر اب ایسا نہیں رہا۔ حالیہ تباہ کن سیلاب کے دوران بھی پی ٹی آئی ارکان نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی بریفنگ کا بائیکاٹ کیا، حالانکہ چند لمحے پہلے ہی ایوان میں سب نے متاثرینِ سیلاب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ انتخابات یا اسمبلیوں کا بائیکاٹ کبھی بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔ اسمبلی کے اندر احتجاج کے بہت سے طریقے موجود ہیں جیسے تقریریں، سوالات، تحاریک وغیرہ، جنہیں میڈیا بھی نمایاں کرتا ہے۔ لیکن بائیکاٹ کرنے سے پارٹی ان مواقعوں سے محروم ہو جائے گی۔
بینظیر بھٹو نے ہمیشہ 1985 کے انتخابات کے بائیکاٹ کو اپنی بڑی سیاسی غلطی کہا۔ بعد کے انتخابات میں دھاندلی کے باوجود وہ اسمبلی میں بیٹھی رہیں ، حتیٰ کہ نواز شریف کے دور میں خارجہ امور کمیٹی کی سربراہی بھی قبول کی بے شک ان کے پاس کم سیٹیں رہ گئیں، لیکن انہوں نے اسمبلی کا بائیکاٹ کبھی نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بائیکاٹ کی سیاست نہ صرف ملک و جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس کا خود سیاسی جماعت کو بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ طے نہیں کہ بائیکاٹ سے پی ٹی آئی کے مطالبات مان لیے جائیں گے، مگر یہ تقریباً یقینی ہے کہ اس پالیسی سے پارٹی اور اس کے امیدوار کمزور ہوں گے اور اگلے انتخابات میں نقصان اٹھائیں گے۔
احمد بلال محبوب : ڈان نیوز
مترجم : معصومہ زہرا