
New Zealand has eased visa rules for 'digital nomads' to boost tourism.
نیوزی لینڈ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسے افراد کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہتے ہیں ، جو ملک میں رہنا چاہتے ہیں اور نیوزی لینڈ میں رہتے ہوئے آن لائن کام سرانجام دے سکیں، جنہیں “ڈیجیٹل خانہ بدوش” کہا جاتا ہے۔
معاشی ترقی کی وزیر نکولا ولس کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے نیوزی لینڈ کو زیادہ ہنر مند افراد اپنی جانب متوجہ کرنے میں مدد ملے گی، جو دنیا کی بڑی کمپنیوں اور صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ ولس نے وضاحت کی کہ یہ افراد نیوزی لینڈ کے مقامی لوگوں کی ملازمتوں پر اثر انداز نہیں ہوں گے کیونکہ یہ پہلے ہی دوسرے ممالک میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔
وزیٹر ویزا پر آنے والے سیاح اور وہ افراد جو اپنے خاندان یا رشتہ داروں سے ملنے آتے ہیں وہ بھی اس پالیسی سے مستفید ہوسکیں گے، بشرطیکہ ان کا کام صرف آن لائن ہو۔ البتہ، جو لوگ ملک کے اندر کام کرنے کے خواہشمند ہوں گے، انہیں الگ ویزا حاصل کرنا ہوگا۔
کوویڈ 19 سے پہلے، سیاحت نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی برآمدی صنعت تھی، جو ملکی معیشت میں 40 بلین ڈالر حصہ ڈالتی تھی۔ تاہم، وبائی مرض کے دوران یہ صنعت شدید متاثر ہوئی، اور ملکی معیشت مشکلات کا شکار ہوگئی، جس سے بے روزگاری میں اضافہ اور معاشی ترقی میں رکاوٹ شامل ہیں۔
نیوزی لینڈ حکومت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا، جب دنیا بھر میں ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا، برازیل، اسپین اور پرتگال جیسے ممالک پہلے ہی اس قسم کے ویزا پروگرام متعارف کرا چکے ہیں۔
اگرچہ یہ پالیسی دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے، لیکن کچھ جگہوں پر اس کے منفی اثرات پر بھی مرتب ہوئے ہیں ، جیسا کہ جنوبی افریقہ کے کیپ ٹاؤن میں، آن لائن کام کرنے والے افراد کی آمد نے رہائشی اخراجات بڑھا دیے ہیں، جبکہ اسپین اور یونان جیسے ممالک میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا ہے۔