
پاک–امریکا تعلقات میں نئی گرمجوشی — شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے تاریخی ملاقات
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) واشنگٹن میں جمعرات کو پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے ایک اہم موڑ پر، وزیرِاعظم شہباز شریف اور پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے باضابطہ ملاقات کی۔ یہ ملاقات سابق وزیراعظم عمران خان کی جولائی 2019 میں ٹرمپ سے پہلی ملاقات کے چھ سال بعد اور ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے دوران پہلی اعلیٰ سطحی دو طرفہ ملاقات تھی۔
پاک–امریکا تعلقات میں نئی پیش رفت
امریکی صدر کے سرکاری شیڈول کے مطابق یہ ملاقات واشنگٹن کے وقت کے مطابق شام 4:30 بجے (پاکستانی معیاری وقت کے مطابق رات 1:30 بجے) ہونی تھی، تاہم یہ تقریباً 30 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوئی کیونکہ صدر ٹرمپ ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں مصروف تھے۔اوول آفس میں ہونے والی یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ اور 20 منٹ تک جاری رہی۔ اس دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو بھی موجود تھے۔
وائٹ ہاؤس پریس پول کی جانب سے جاری تصاویر میں وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اوول آفس میں دکھایا گیا ہے جہاں وہ امریکی صدر کے مصروفیات ختم کرنے کے دوران منتظر بیٹھے تھے۔ ملاقات کے بعد جاری ایک گروپ فوٹو میں صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں انگوٹھا بلند کر کے خوشگوار ماحول کا اظہار کیا۔
سرکاری خیر مقدم
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کے واشنگٹن پہنچنے پر اینڈریو ایئر بیس پر ریڈ کارپیٹ استقبال کیا گیا۔ امریکی ایئر فورس کے اعلیٰ عہدیدار نے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کا خیرمقدم کیا۔ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایک عظیم رہنما وائٹ ہاؤس آ رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل ملاقات کے لیے پہنچ رہے ہیں، فیلڈ مارشل ایک بہترین شخصیت کے مالک ہیں اور وزیراعظم بھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ شیڈول سے پتا چلتا ہے کہ اس ملاقات کے دوران صحافیوں کو مدعو نہیں کیا گیا، جو صدر ٹرمپ کے معمول کے طریقۂ کار سے ہٹ کر ہے کیونکہ وہ عام طور پر اوول آفس میں منتخب میڈیا نمائندوں کو بلاتے ہیں۔
پاک–امریکا تعلقات کا نیا موڑ
نیویارک میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں گرمجوشی بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی برسوں تک امریکا نے بھارت کو ایشیا میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا توازن قائم کرنے کے لیے اہم شراکت دار سمجھا، جبکہ پاکستان کو چین کا قریبی اتحادی قرار دیا جاتا رہا۔ تاہم جنوری 2025 میں صدر ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
اس کی بڑی وجوہات میں بھارتی شہریوں کے لیے ویزا پابندیاں، بھارتی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف اور صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ شامل ہے کہ انہوں نے مئی 2025 میں سرحد پار جھڑپوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرائی۔
سینئر عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات بھارت کے ساتھ واشنگٹن کی پالیسی سے منسلک نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں امریکی سرمایہ کاری کی مالیت سیکڑوں ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور امریکا پٹرولیم کی تلاش میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن اس وقت بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہا ہے۔
تجارتی و علاقائی پس منظر
31 جولائی کو امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک تجارتی معاہدے کا اعلان ہوا تھا، جس کے تحت امریکا نے پاکستانی مصنوعات پر 19 فیصد ٹیکس عائد کیا۔ابھی تک صدر ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی معاہدہ نہیں کیا، جس کے باعث تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے واشنگٹن کے ساتھ تناؤ کے جواب میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ جون 2025 میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ایک علیحدہ ملاقات کی تھی۔ اس اعلیٰ سطحی ملاقات کے دوران کابینہ روم میں ظہرانے اور بعد ازاں اوول آفس کے دورے میں ایران–اسرائیل تنازع کے پرامن حل پر زور دیا گیا تھا۔
وزیراعظم کا سفارتی دورہ
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا یہ امریکا کا سفارت کاری سے بھرپور دورہ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے ذریعے اپنے عروج پر پہنچا۔وزیراعظم اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس، مسلم بلاک کے اہم کثیرالجہتی اجلاس، اور نیویارک میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سربراہان سے علیحدہ ملاقاتوں میں شرکت کر چکے تھے۔
ذرائع کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی اس ملاقات کا حصہ بننے کے لیے واشنگٹن پہنچے، وہ اس سال کے اوائل میں وائٹ ہاؤس میں باضابطہ دو طرفہ ملاقات کے لیے مدعو کیے جانے والے پاکستان کے پہلے فوجی کمانڈر تھے۔یہ ملاقات پاک–امریکا تعلقات میں نئے باب کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جس کے خطے کی سکیورٹی اور معیشت پر دیرپا اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔