اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹوز عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔ اس سے پہلے آئینی بینچ نے انتخابات میں دھاندلی سمیت دیگر مقدمات کی سماعت بغیر کارروئی ملتوی کردی۔
جسٹس امین الدین خان نے آگاہ کیا کہ آئینی بینچ آج صرف فوجی عدالتوں کا کیس سنے گا۔ جس کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹم پر آئے اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
’ایگزیکٹو اپنے خلاف جرم کا فیصلہ خود کرے گا؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کرسکتا ہے، آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مذکورہ کیس میں اس نکتہ کو بنیادی آئینی سوال قرار دیا، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں انسداد دہشتگردی عدالتوں کا فورم موجود ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے، آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے۔ خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں، اس میں مختلف کیٹیگریز شامل ہیں، جس کے بارے میں آگے چل کر عدالت کو بتاؤں گا۔