
کیا پاکستان پولیو کے خاتمے میں ناکام ہو رہا ہے؟
ڈان نیوز اپنے آج کے اداریہ میں “پولیو کا پہاڑ” کے عنوان سے لکھتا ہے کہ دنیا کی پولیو کے خلاف جنگ ایک شیشے کے پہاڑ پر آ کر اٹک گئی ہے۔ 37 سال میں 22 ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد، انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ روایتی حکمتِ عملیاں اب ناکام ہو رہی ہیں۔
ان کی تازہ ترین رپورٹ “گلاس ماؤنٹین” پاکستان کو مرکزِ نگاہ بناتی ہے۔ ملک میں اس سال اب تک پولیو کے 27 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں — تعداد میں کم، لیکن اتنی زیادہ کہ بورڈ کے بقول یہ وائرس کے “پھر سے ابھرنے” کا ثبوت ہے، جو دنیا میں جنگلی پولیو وائرس کے آخری گڑھوں میں سے ایک ہے۔
ڈان نیوز کے اداریہ نے بورڈ کی رپورٹس کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ بورڈ کے مطابق پاکستان کے دعوے کہ 2021 سے 2023 کے درمیان پولیو کی ترسیل رک گئی تھی،دراصل ایک وہم تھے جو کووڈ-19 کی پابندیوں نے پیدا کیا۔ وائرس کا پھیلاؤ بہتر مہمات کی وجہ سے نہیں بلکہ لاک ڈاؤنز کی وجہ سے تھما۔ یہ عارضی ریلیف اب ختم ہو چکا ہے۔ نئے انفیکشن سامنے آنے سے پروگرام کی سمت پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔
اداریہ کے مطابق پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششیں ہمیشہ سے کچھ مخصوص ناکامیوں کا شکار رہی ہیں۔ ایسی فنڈنگ جو نتائج کے بجائے صرف کوشش کو انعام دیتی ہے، معمول کی ویکسینیشن سے سطحی تعلق، جواب دہی کے نظام جو صرف رپورٹیں تیار کرتے ہیں لیکن سزا یا جرمانے نہیں دیتے، اور ڈونرز پر ضرورت سے زیادہ انحصار، جبکہ پائیدار ملکی قیادت ناپید ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام کھڑا ہوا ہے جو منصوبے اور پریس ریلیز بنانے میں ماہر ہے مگر ہر بچے کو ویکسین پلانے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ ضلعی منیجر اکثر پرانے بہانے دہراتے ہیں جبکہ سیاستدان زبانی جمع خرچ کے سوا وسائل یا عملی اقدامات فراہم نہیں کرتے۔
اب آئی ایم بی تجویز دیتا ہے کہ پولیو کے خاتمے کی ذمہ داری جنیوا سے ہٹا کر ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرۂ روم کے ریجنل آفس کو منتقل کر دی جائے۔ اس تبدیلی کا مقصد یہ ہے کہ اس تباہ کن تاثر کو کم کیا جا سکے کہ پولیو کا خاتمہ ایک مغربی ایجنڈا ہے جو باہر سے مسلط کیا گیا ہے۔ اس سے مقامی سیاستدانوں پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ خود اس ذمہ داری کو قبول کریں۔ برسوں سے کمیونٹی کی مخالفت — جو سازشی نظریات، غیر ملکیوں پر عدم اعتماد اور بار بار کے سیکیورٹی سانحات نے بڑھائی — انکار، بائیکاٹ اور بدقسمتی سے ویکسینیٹرز کے قتل تک کی شکل میں سامنے آتی رہی ہے۔
اگر اس مہم کو ایک علاقائی ترجیح کے طور پر دوبارہ پیش کیا جائے تو شاید اس اعتماد کے خلا کو کچھ حد تک پُر کیا جا سکے۔ لیکن اصل محنت گھر کے اندر کرنی ہے۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پولیو کو ایک بیرونی فنڈڈ پروگرام کے بجائے اپنی اہلیت کا قومی امتحان سمجھنا ہوگا۔
ڈان نیوز اپنے اداریہ میں مذید لکھتا ہے کہ زیادہ خطرے والے اضلاع میں مستقل ناکامی کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس پروگرام کو وسیع تر صحت کی خدمات کے ساتھ مربوط کرنا اب وقت کی ضرورت ہے: معمول کی ویکسینیشن اور بنیادی طبی سہولیات بنیاد ہونی چاہئیں، نہ کہ بعد میں سوچا جانے والا اضافہ۔ نگرانی کے نظام کو بھی زیادہ تیز اور درست ہونا چاہیے؛ ماحولیاتی سیمپلز ظاہر کرتے ہیں کہ وائرس کیسز کی تعداد سے کہیں زیادہ پھیل رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پوشیدہ ترسیلی زنجیریں اب تک ٹوٹی نہیں ہیں۔
خاتمہ ناممکن نہیں۔ آنے والا کم ترسیلی سیزن ایک موقع فراہم کرتا ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ پرانی عادتیں ترک کر دی جائیں۔ مزید پیسہ یا غیر ملکی تکنیکی مدد کافی نہیں ہوگی۔ ضرورت ہے جدت کی، سیاسی عزم کی، اور ناکامیوں کو جواب دہ بنانے کی۔ وہ وائرس جو کبھی دنیا کو خوفزدہ کرتا تھا، آج بھی یہاں زندہ ہے۔ اس کا خاتمہ ہوگا یا یہ باقی رہے گا، اس کا انحصار ڈونرز کے ڈالرز پر نہیں بلکہ پاکستان کے اپنے عزم پر ہے کہ وہ اپنا شیشے کا پہاڑ سر کرتا ہے یا نہیں۔