
کابل سے بھارتی سفارتکار کی واپسی پر تضاد — طالبان اور بھارت کے تعلقات میں نئی کشیدگی؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) کابل سے بھارتی سفارتکار ہریش کمار کی واپسی نے طالبان اور بھارت کے تعلقات میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے افغانستان انٹرنیشنل کو ذرائع نے بتایا تھا کہ افغان طالبان کے بعض ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سینئر بھارتی سفارتکار کو “ناپسندیدہ شخصیت” قرار دے کر ملک بدر کیا گیا جبکہ طالبان کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ہریش کمار کو بے دخل نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے محض اپنا سفارتی مشن مکمل کیا تھا۔
ہریش کمار کی تعیناتی اور قیام
ہریش کمار کو افغانستان کی سابق حکومت کے خاتمے کے بعد کابل میں تعینات کیا گیا۔میڈیا رپورٹس اور ذرائع کے مطابق وہ صرف سفارتکار نہیں بلکہ بھارت کی بیرونی خفیہ ایجنسی “را” کے ساتھ بھی رابطہ رکھتے تھے۔ افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق کمار کا سفارتی پاسپورٹ 15 ستمبر 2023 کو جاری ہوا تھا اور انہوں نے پہلی بار 24 مئی 2025 کو کابل میں داخلہ لیا۔ ان کا قیام تین ماہ سے بھی کم یعنی تقریباً 85 دن پر مشتمل رہا۔
طالبان کے الزامات
طالبان انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ کمار نے کابل میں طالبان مخالف شخصیات سے روابط قائم کیے اور انہیں منظم کرنے کی کوشش کی۔ بتایا گیا کہ انہوں نے قطر اور دہلی کے دوروں میں اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور اسلام آباد میں ایک اجلاس بلانے پر بات کی، جسے طالبان قیادت نے سختی سے مسترد کر دیا۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے 17 اگست کو انہیں “ناپسندیدہ شخصیت” قرار دے کر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔
وزارتِ خارجہ کا موقف
افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق طالبان کی وزارتِ خارجہ نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہریش کمار کو ملک بدر نہیں کیا گیا، بلکہ انہوں نے محض اپنا سفارتی مشن مکمل کیا تھا۔ وزارت نے واضح کیا کہ انہیں “ناپسندیدہ شخصیت” قرار دینے کی خبریں درست نہیں۔
بھارت کی پوزیشن
بھارت نے تاحال طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا، تاہم انسانی بنیادوں پر امداد اور محدود تجارتی تعلقات جاری ہیں۔ نئی دہلی کی وزارتِ خارجہ اور کابل میں بھارتی مشن نے اس معاملے پر کوئی عوامی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
بھارت اور طالبان تعلقات
سفارتی ماہرین کا خیال ہے کہ اس پیش رفت سے بھارت اور طالبان کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ کسی بھی سفارتکار کو “ناپسندیدہ شخصیت” قرار دینا عام طور پر جاسوسی یا سیاسی مداخلت کے شبہات پر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ طالبان کی وزارتِ خارجہ نے اس تاثر کی نفی کی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے طالبان حکومت پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے لیے دہلی کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا ہے تاہم طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔