اشرافیہ و فرٹیلائزر کمپنیوں کے بجائےکسانوں اور ہاریوں کو سبسڈی دیں تو معاشی انقلاب لاسکتے ہیں،بلاول بھٹو
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ اشرافیہ و فرٹیلائزر کمپنیوں کو اربوں روپے سبسڈی دینے کے بجائے اگر وہ سبسڈی ہم براہ راست اپنے کسانوں اور ہاریوں کی جیب میں پہنچائیں گے تو ہم ایک معاشی انقلاب لاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آئینی تحفظ دلوانا چاہیئے تاکہ کوئی آگے جاکر اسے ختم کرنے کی سازش نہ کرسکے، ہمیں اپنی غریب ترین عورتوں کو اور اس ملک کے غریب طبقے کو یہ یقین دلانا چاہیئے کے آگے جاکر بھی انشاء ﷲ یہ منصوبہ جاری رہے گا۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ حکومت بننے سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا تھا جس کے تحت چاروں صوبوں کی پی ایس ڈی پی میں ہم سے مشاورت لے کر بنانی چاہیئے تھی۔ مگر افسوس کے ساتھ حکومت نے اس شرط پر عمل نہیں کیا اگر اس شرط پر عمل ہوتا تو بہتر نتائج سامنے آتے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام کو آج فکر نہیں کہ کون جیل میں تھا کون ہے کون جیل جائے گا، عوام کو فکر روٹی کپڑا اور مکان کی ہے، عوام ہم سے مشاورت سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے بغیر اور میثاق جمہوریت کے بغیر عوام کی امید پوری نہیں کی جاسکتی، حکومت اور اپوزیشن ملکر عوام کے مفاد کے نتیجے پر پہنچیں، جب ہم نے وزیر اعظم شہبازشریف کو ووٹ دینے کا طے کیا، ہمارا حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں پی ایس ڈی پی اور بجٹ میں اعتماد میں نہیں لیا گیا، صرف ہم کو ہی نہیں دیگر اتحادیوں اور اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، اگر وزیر اعظم سب کی رائے لیتے تو پاکستان کی سیاسی و معاشی کی جیت ہوتی۔
قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے پانچ سال قبل کی قیمتوں اور موجودہ قیمتوں کا تقابلی جائزہ پیش کردیا۔
انہوں نے کہا کہ آج 35 ہزار والا گھریلو خرچ 75ہزار تک جاچکا ہے، مہنگائی میں کچھ ہلکی سی کمی ہوئی ہے، عام آدمی مہنگائی ہونے کو دیکھ رہا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ میں 25فیصد اضافہ اچھی بات ہے، ہمارے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دیگر ممالک کاپی کررہے ہیں، باجوہ ڈاکٹرائن کے نام پر پتہ نہیں کیا کیا ہورہا تھا، ہم سیاسی جماعتوں نے الگ الگ نظریات کے باوجود ملکر چلنے کا فیصلہ کیا۔
چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ بے نظیر انکم سپورٹ کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے، اپوزیشن کو بھی ساتھ ملاکر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بہتر بنانا چاہیے۔
انکا کہنا تھا کہ بجٹ تقریر سے وزیر خزانہ کی تعریف کرنا تو بہت چاہتا تھا، افسوس ٹیکسوں کی وجہ سے وزیر خزانہ کی تعریف نہیں کرسکتا، ہر بجٹ کی طرح یہ بجٹ بھی بلواسطہ ٹیکس 75فیصد تک عام آدمی کو متاثر ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم نیب ایف آئی اے وغیرہ کو ٹیکس لینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ہمیں ملکر ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہوگا، سیلز ٹیکس صوبوں کے پاس ہونا چاہیے، اگر ٹیکس کو صوبوں کو نہیں دینا اپنی جگہ ہے، مرکز جو سیلز ٹیکس جمع کرے وہ ہر صوبے کو بروقت دے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عارضی طوپر دوسال کے لیے صوبوں کو سیلز ٹیکس کا اختیار دے دیا جائے، سترہ اٹھارہ وزارتیں ابھی صوبوں کے پاس نہیں جاسکیں۔