Friday, July 5, 2024
Top Newsعالمی عدالت انصاف کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے دردِ سر

عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے دردِ سر

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اسرائیل کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق جنوبی افریقہ کی اس دلیل کو قبول کرلیا گیاہے کہ غزہ کی حا لیہ لڑائی میں اسرائیل کا طرز عمل ممکنہ طور پر نسل کشی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس فیصلے میں عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق اس معاملے پر حتمی فیصلے میں مزید وقت لگے گا، لیکن عالمی عدالت انصاف جب بھی تفصیلی فیصلہ جاری کرے گی تو اس فیصلے کے اہم سیاسی نتائج ہوں گے۔ عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ کہ اسرائیل اس جنگ میں نسل کُشی کا مرتکب ہوا ہے، اس فیصلے سے اسرائیل کی عالمی ساخت کو سخت ترین دھچکہ لگے گا۔ اسرائیل نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بی ۔ڈی ۔ایس تحریک – بائیکاٹ، ڈس انویسٹمنٹ اور معاشی پابندیوں کو کمزور بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے۔ اسرائیل نے یہ حکمت عملی اس لئے نہیں اپنائی کہ کہ اس کا اس پر اہم معاشی اثر پڑے گا بلکہ اسرائیل اس لیے فکر مند تھا کہ اس تحریک کے سبب اسے عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے دردِ سر

تاہم عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ کہ اسرائیل نسل کشی میں ملوث ہوسکتا ہے یہ اسرائیل کی ساخت کے لیے اسے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے جتنی کوشش بی ۔ڈی ۔ایس تحریک کررہی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی بڑی تنظیمیں پچھلے چند سالوں میں اپنی رپورٹس میں اس امر کا بارہا ذکر کر چکی ہیں کہ حالیہ چند سالوں کے دوران اسرائیل میں ہونے والی عوامی بحثوں میں نسل پرست بیانیہ بہت عام ہوا ہے ۔ اب جبکہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے یہ ابتدائی فیصلہ آ چکا ہے کہ اسرائیل غزہ کی حالیہ لڑائی میں نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے ۔ عالمی سطح پہ اس فیصلے سے عوامی حلقوں میں اسرائیلی امیج بُری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ یہ صورتحال امریکہ سمیت ایسے ممالک کے لئے بہت تشویش ناک ہے جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی جارحیت کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔
عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ امریکی حکومت کے لیے بھی بہت اہم ثابت ہوگا ۔سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنا فیصلہ نافذ کر سکے ۔البتہ یہ معاملہ سلامتی کونسل میں جائے گا جہاں بائیڈن انتظامیہ کے پاس ایک بار پھر موقع ہوگا کہ وہ اس معاملے پر اپنا ویٹو استعمال کر لے اور اگر امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں اپنا ویٹو استعمال کیا تو امریکہ کو بھی سفارتی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پرے گا ،اور اگر بائیڈن انتظامیہ نے فیصلے کی حمایت کی اسے امریکہ میں اس فیصلے کی سیاسی قیمت چکانی پڑے گی کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کی حمایت سے دستبردار ہوگئی ہے ۔تاہم ابھی تک بائیڈن انتظامیہ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ عالمی عدالت فیصلے کو قبول کرے گی ۔بلاشبہ عالمی عدالت انصاف کے ماضی کےمقدمات جن میں یوکرین ، میانمار اور شام سے متعلقہ مقدمات کے ابتدائی فیصلے شامل ہیں ، ان کے متعلق امریکہ اور مغربی ریاستوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مکمل طور پر نافذ العمل ہونگے۔

اب اگر اس صورتحال میں صدر بائیڈن آئی سی جے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں یااس کے نفاذ کو روکنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں تو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا دوہرا معیار واضح ہوجائے گا۔ دوسری جانب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں نے 7 اکتوبر سے “قواعد پر مبنی آرڈر” کی اصطلاح کے استعمال میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس سے یہ خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کہ، صدر بائیڈن کی حمایت نے نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل کے اقدامات کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ صدر بائیڈن متوازن رہتے ہوئے اسرائیل کی طرف سے اٹھائے گئے سخت اقدامات کی مخالفت کرسکتے تھے ۔ اور اسرائیل کو ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے روک سکتے تھے جنہیں نسل کشی سمجھا جا سکتا تھا۔ تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ عوامی سطح پر اسرائیلی اقدامات پر تنقید کی بجائے ، بائیڈن نے اسرائیل کی غزہ میں فوجی جارحیت پر اسے غیر متزلزل حمایت فراہم کی، اور پسِ پردہ محدود دباؤ ڈالا ۔ اگر ریاست ہائے متحدہ اسرائیل کی غزہ پر فوجی جارحیت کے متعلق مختلف نقطہ نظر اپناتی تو اسرائیل کے غزہ میں فوجی اقدامات متاثر ہوسکتے تھے۔ اور عالمی عدالت انصاف کا اسرائیل سے متعلق یہ ابتدائی فیصلہ کہ غزہ کی حا لیہ لڑائی میں اسرائیل کا طرز عمل ممکنہ طور پر نسل کشی کا باعث بن سکتا ہے۔ ، مختلف ہوسکتا تھا ۔

امریکہ کے اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب امریکہ اپنے اتحادیوں کو بغیر کسی سوال کے غیر مشروط حمایت اور مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے تو وہ ان کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ لہذا، بائیڈن کی غیر مشروط حمایت بالآخر اسرائیل کے خلاف کام کر سکتی ہے۔
یہ فیصلہ اس دعوے کی حمایت بھی کر سکتا ہے کہ نسل کشی کنونشن پر دستخط کرنے والے ممالک کا فرض ہے کہ وہ نسل کشی کو ہونے سے روکیں۔مثال کے طور پر، حوثیوں نے ا بحیرہ احمر میں اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر اپنے حملوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے اس دلیل کو استعمال کیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں حوثیوں کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی فوجی کارروائیوں کے قانونی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

یورپ کے لیے اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ اکثر بین الاقوامی قانون اور اداروں کو نظر انداز کرتا ہے، اور یہ حکم امریکہ کے اس طرز عمل کو چیلنج کر سکتا ہے۔تاہم یورپی ممالک کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے کیونکہ یورپی سلامتی کونسل کے نزدیک بین الاقوامی قوانین اور ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین کی کچھ اہم ریاستیں آئی سی جے کے فیصلے کو مسترد کر دیں گی،جوکہ یورپ کی وسیع تر سیکیورٹی اپروچ کے سخت خلاف ہے ۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے آئی سی جے میں درخواست دینے سے اسرائیل کی غزہ میں فوجی جارحیت متاثر ہوئی ہے ۔کیونکہ غزہ سے لوگوں کو زبردستی نکالنے اور انہیں دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے کو روک دیا گیا ہے، کیونکہ اسرائیل کو لگ رہا تھا کہ اس کے یہ اقدامات جنوبی افریقہ کی درخواست کی حمایت کریں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے ، ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی قانون پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے کسی بھی اقدام کے مقابلے میں غیر قانونی اسرائیلی اقدامات کو روکنے میں زیادہ مؤثر کردار ادا کیا ہے۔

عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے دردِ سر

دیگر خبریں

Trending