فلاحی ادارے فریضہ میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی ۔ اس موقع پر بچوں کی دلچسپ اور رنگارنگ پرفارمنس کے ساتھ ساتھ اسکول میں امتحانات کے نتائج کا اعلان بھی کیا گیا۔ نمایاں پوزیشنیں لینے والے بچوں میں اعزازی سرٹیفکیٹس تقسیم کئے گئے۔ اس تقریب میں طلبہ اور ان کے والدین کے علاوہ شعبہ تعلیم سے وابستہ نمایاں شخصیات نے بھی شرکت کی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر افشاں ہما، نیشنل اسکل یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے لیکچرار محمد یونس، حقوق انسانی کے معروف کارکن اور ادارہ استحکام شرکتی ترقی (ایس پی او)کے سابق سربراہ سلیم ملک اور یواین ڈی پی میں تعمیرنو کے شعبہ سے منسلک مشیر عثمان قاضی بھی اس تقریب کا حصہ تھے۔ اس موقع پر اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اور ان مہمانوں کے درمیان غربت اور تنگدستی کے باوجود بچوں کی تعلیم کی اہمیت کے متعلق ایک مکالمے کا اہتمام بھی کیا گیا۔
واضح رہے کہ فریضہ اسکول اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ ہے جو ان بچوں اور بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے جو غربت اور دیگر وجوہات کے سبب رسمی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس اسکول کی بانی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی لیکچرار سحرش خان سدوزئی ہیں جنہوں نے اپنے گھر کی زکوۃ اور دیگر دوستوں کی مالی مدد کے ساتھ دوہزار سولہ میں راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن اور ڈی۔ایچ۔اے جیسے پوش علاقوں میں گھریلو ملازماؤں کے بچوں کے لئے ایک ایسا غیر رسمی تعلیمی ادارہ قائم کیا جہاں انہیں چوتھی جماعت کے درجے تک اعلی بنیادی تعلیم وتربیت مہیا کی جاتی ہے اور بعد ازاں ان بچوں کو مزید تعلیم کے لئے علاقے کے مقامی سرکاری اسکول میں داخل کروادیا جاتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد اسکول جانے کی عمر کے بچوں کے لئے یہ یقینی بنانا ہے کہ وہ اسکول میں داخل ہوں۔ چونکہ ملک کے دور دراز علاقوں سے روزی کے مقصد سے نقل مکانی کرکے بڑے شہروں کی طرف آنے والے خاندانوں کی بڑی تعداد ان پڑھ اور تعلیم کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوتی لہذا ان خاندانوں کے مرد و خواتین دیہاڑی دار مزدور یا جز وقتی گھریلو ملازمین کی حیثیت سے شہر کے پوش علاقوں میں دن کے اوقات میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان پوش علاقوں کے قرب و جوار میں واقع بستیوں میں کرائے کے معمولی مکانوں میں رہائش پذیر ان خاندانوں کے سینکڑوں بچے والدین کی غربت اور سرکاری اسکول میں داخلے کے لئے لازمی بے فارم نہ ہونے کے سبب تعلیم کی بنیادی سطح سے بھی محروم رہتے ہیں۔
فریضہ اسکول کی بانی مس سحرش خان کے مطابق فریضہ ایسے والدین کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتا ہے جو اپنے بچوں کی دیکھ بھال چھوڑ کر اونچے طبقے کے گھروں کی نوکری کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی محض پرورش کرسکیں۔ ان والدین کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے وسائل نہیں ہوتے لہذا فریضہ ان کے بچوں کے لئے معیاری تعلیم وتربیت کا بندوبست کرکے ملک میں غربت اور جہالت کا دائرہ توڑنے کی ایک قابل تقلید کوشش کررہاہے۔ مس سحرش خان کے بقول ان کا یہ مشن صرف تعلیم کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ ان بچوں کے لیے ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھولنے کا عزم ہے جہاں وہ اپنی شناخت اور خود مختاری حاصل کر سکیں گے۔
نیشنل اسکل یونیورسٹی کے لیکچرر محمد یونس نے شرکاء کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں ابھی تک بھی لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جن کے لیے تعلیم کے دروازے مکمل طور پر نہیں کھل سکے۔ ایسے میں اگر سحرش خان جیسی شخصیات آگے بڑھ کر “فریضہ اسکول” جیسے ادارے قائم کرتی ہیں تو یہ محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو اس طبقے کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ہمیں اس تحریک کا حصہ بن کر اس مقصد کو آگے بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا دین تعلیم کو ہر مرد عورت پر فرض قرار دیتا ہے اور جنس کی بنیاد پر کسی سے کوئی تفریق روا نہیں رکھتا۔ مذہب کے نام پر گمراہ کن نظریات پیش کرنے والے درحقیقت تعلیم کے دشمن ہیں۔
مکالمے کے دوران ڈاکٹر افشاں ہما نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ آج بھی بچیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہیں یا اس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں اس پر جناب سلیم ملک نے اس پر اپنی صاحبزادی کے ساتھ اپنے رشتے سے بہترین مثالیں پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ وہ وقت گزر چکا ہے جب بچیوں کی تعلیم کو نظرانداز کرنا ممکن تھا۔
یو این ڈی پی کے مشیر عثمان قاضی نے تعلیم کو فرضِ عین قرار دیا اور کہا کہ “فریضہ اسکول” فرضِ کفایہ کے طور پر ایک اہم ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ اپنی گفتگوکے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی تعلیم کے لیے اپنے نانا اور نانی کی قربانیوں کا اور خود اپنے لیے اپنے والدین کی بے مثال جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ ہرطرح کی قربانی دے کر اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ تقریب میں شامل مولانا آصف حسین نے کہا کہ ہم سب اپنے بچوں کے لیے گھرتعمیر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جبکہ ہمیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی بطورمفید فرد تعمیر کرنی چاہیئے۔
سحرش سدوزئی نے اپنے مشن اور عزم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خواب ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو علم، قابلیت اور خود اعتمادی کے لحاظ سے معاشرے کی اشرافیہ کے برابر ہوتاکہ غربت ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور وہ خود کو معاشرے میں ایک لازمی عنصر کے طور پر منوا سکیں۔
نیشنل اسکل یونیورسٹی کے لیکچرر محمد یونس نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ تقریب محض ایک تعلیمی تقریب نہیں بلکہ ایک تحریک کی ابتدا ہے۔ فریضہ اسکول کی یہ کوشش صرف تعلیم کی ہی نہیں بلکہ معاشرتی انصاف اور احساس کے خواب کی تعبیر ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اس مشن کی کامیابی کے لیے اپنی توانائیاں اور وسائل فراہم کریں تاکہ یہ روشنی کا کارواں آگے بڑھتا رہے اور ملک میں جہالت کے اندھیرے مٹانے کی راہ پہ گامزن رہے۔
اس تقریب کے دیگر مہمانوں میں فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر میمونہ خان ، نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی کی لیکچرر مس ماہم عمران، الصراط فاؤنڈیشن کے نمائندے محمد طیب، اور ینگ مائنڈ ایسوسی ایشن کے سربراہ محمد سمیع اللہ بھی شریک تھے۔