یورپی یونین انتخابات:دائیں بازو کی جماعتوں کی جیت، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو شکست کا سامنا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جرمن چانسلر اولاف شولز، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور آسٹریا کے چانسلر کارل نیہمر کی جماعتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا.
جبکہ مرکزی دھارے کی جماعتوں نے اتوار کو 705 رکنی یورپی پارلیمنٹ کا کنٹرول برقرار رکھا، 27 رکنی بلاک خطے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے پائیدار ہونے کی علامت میں واضح طور پر دائیں طرف جھک گیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اتوار کو ہونے والے انتخابات میں یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں فرانس، اٹلی، آسٹریا سمیت کئی مقامات پر فاتح رہیں جبکہ جرمنی کی اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر رہی لیکن تب بھی اے ایف ڈی جرمن چانسلر اولاف شولز کی ایس پی ڈی پارٹی سے آگے رہی، اس کے علاوہ سخت دائیں بازو کی جماعتوں نے نیدرلینڈز میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔
لیکن ماہرین نے ان کی کامیابی پر زیادہ انحصار کرنے سے خبردار کردیا ہے۔
بریگل تھنک ٹینک کے وزٹنگ فیلو فرانسسکو نکولی نے کہا کہ دائیں بازو نے اچھی کارکردگی دکھائی لیکن یہ شاندار نہیں تھی، یہ نہ بھولیں کہ یہ دوسرے آرڈر کے انتخابات ہیں۔
جیکس ڈیلورس تھنک ٹینک کی وائس چیئر کرسٹین ورجر نے بتایا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک بہت ہی بڑا دھچکا ہے، سیاسی گروہوں کے اندر تبدیلیاں ہوسکتی ہیں، ہم نہیں جانتے کہ کچھ ارکان یورپی پارلیمنٹ (ایم ای پیز) کہاں جائیں گے، ایک بڑا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پارلیمنٹ میں انتہائی دائیں بازو کے دو اہم گروپس، آئیڈینٹیٹی اینڈ ڈیموکریسی (آئی ڈی) اور یورپی کنزرویٹو اینڈ ریفارمسٹ (ای سی آر)، متحد ہو کر ایک سپر گروپ بنا سکتے ہیں یا نہیں؟
انہوں نے اے ایف پی کو کہا کہ میں قطعی طور پر اتحاد کا تصور نہیں کرسکتی، آئی ڈی اور ای سی آر کا ضم ہونا سوال سے باہر ہے۔
ای سی آر میں اطالوی انتہائی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی شامل ہیں، جن کی برادران آف اٹلی پارٹی انتخابات میں سرفہرست رہی۔
یورپی پارلیمنٹ میں قانون سازی پر انتہائی دائیں بازو کے ممکنہ اثرات کے بارے میں ماہرین ناگوار نظر آئے۔
ماہر مارٹا لوریمر نے پیشنگوئی کی کہ دائیں بازو کے ایم ای پیز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا یورپی یونین پر صرف ایک محدود اثر پڑے گا، وہ بلاکنگ اقلیت نہیں بناتے۔
انتخابات میں سب سے بڑی شکست فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی ہوئی جن کی لبرل پارٹی کو مارین لی پین کی قیادت میں فرانس کی نیشنل ریلی نے شکست دے دی۔
فرانسیسی صدر نے فرانس کی قومی پارلیمنٹ کو فوری طور پر تحلیل کر کے فوری انتخابات کا اعلان کردیا ہے۔
کرسٹین ورجر کا کہنا تھا کہ فرانس ایک بڑا ملک ہے جس کے صدر کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔
یورپی یونین کی ایک بڑی رکن ریاست کے سربراہ کے طور پر، فرانسیسی صدر یورپی اسٹیج پر ایک اہم کھلاڑی رہیں گے۔