پاکستان کی عدلیہ کی موجودہ صورتحال، ڈان نیوز کے ایڈیٹوریل میں اہم امور کی نشاندہی

پاکستان کی عدلیہ کی موجودہ صورتحال، ڈان نیوز کے ایڈیٹوریل میں اہم امور کی نشاندہی
ڈان نیوز اپنے ایڈیٹوریل میں لکھتا ہے کہ عدلیہ، جو کبھی سیاسی اور ادارہ جاتی غیر یقینی حالات میں رہنمائی اور وضاحت کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی، اب خود اندرونی اختلافات کا شکار نظر آتی ہے۔
جہاں پہلے فیصلوں کے بعد ان کے عوام پر اثرات پر بحث ہوا کرتی تھی، آج توجہ عدالتوں کے اپنے بحرانوں پر مرکوز ہو گئی ہے۔ عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے عدلیہ ایک ایسے تنازعاتی دائرے میں پھنس چکی ہے جس نے انصاف فراہم کرنے کی اس کی صلاحیت پر سے اعتماد کو مسلسل کمزور کیا ہے۔
ایڈٹوریل کے مطابق حالیہ فیصلوں نے نہ تو اعتماد پیدا کیا ہے اور نہ ہی عدلیہ کی ساکھ کو بحال کیا ہے۔ زیادہ تر سیاسی معاملات میں عدالتوں نے بظاہر مضبوط قانونی دلائل کی بنیاد پر فیصلے دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، بس فوری نتائج حاصل کرنا کافی سمجھا۔ دیگر مواقع پر انہوں نے ایک ناقابلِ فہم بے عملی اختیار کی، جب کہ بروقت اور آئینی مداخلت کی اشد ضرورت تھی۔ یہ رویہ شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق مقدمات اور 26ویں آئینی ترمیم سے جڑی درخواستوں، دونوں میں نظر آیا۔
عدلیہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی قائم رکھے اور اختیارات کی علیحدگی کو یقینی بنائے۔ مگر ایک کے بعد ایک کیس میں یہ سنگین ذمہ داری نظرانداز کی جاتی رہی ہے۔
ڈان نیوز نے لکھا ہے کہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ جج صاحبان جو اپنے ادارے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایک افسوسناک مثال اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ہے، جو اُن ججوں میں شامل تھے جنہوں نے 2024ء میں ایک خط کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کو خفیہ اداروں کی مداخلت کی شکایت کی تھی۔
حال ہی میں کراچی یونیورسٹی نے ان کی ایل ایل بی کی ڈگری ایک بار پھر منسوخ کر دی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ انہوں نے چالیس سال قبل امتحان میں “غیر منصفانہ ذرائع” استعمال کیے تھے۔ یہ غیر معمولی قدم اُس وقت اٹھایا گیا جب محض چند روز پہلے وہ اور دیگر چار جج صاحبان اسلام آباد ہائی کورٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر چکے تھے۔ اس کے وقت اور طریقے نے اس بات پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں کہ عدلیہ کی متنازع گرفت کے خلاف اندرونی مزاحمت کو طاقتور حلقے کس طرح کچل رہے ہیں۔
ادارتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک ہائی کورٹ کے جج کو اس طرح بدنام اور نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو ایک عام درخواست گزار کے لیے کیا امید باقی رہ جاتی ہے؟ اگر عدالتیں اپنے ہی ارکان کا تحفظ نہیں کر سکتیں تو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کیسے کریں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا عدلیہ کو فوری طور پر سامنا کرنا چاہیے۔
جب تک عدلیہ اپنی آزادی بحال نہیں کرتی اور انصاف سے وابستگی کا دوبارہ عزم نہیں کرتی، وہ نہ صرف عوامی اعتماد کھو دے گی بلکہ بطور نگہبانِ عدل اپنی اہمیت بھی کھو بیٹھے گی۔ یہ تصور بھی پریشان کن ہے کہ اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔
ڈان نے خبردار کیا ہے کہ اگر طاقتور افراد اور ادارے اپنی مرضی سے قوانین بنانا اور بدلنا شروع کر دیں، اور چند لوگ یہ طے کریں کہ قانون کہاں لاگو ہو گا اور کہاں نہیں، تو معاشرہ ہابس کے بیان کردہ جنگل کے قانون کی کیفیت میں جا پہنچے گا۔ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ کمزوروں کی حفاظت کرے اور ان قوتوں کو روکے جو مطلق العنان رجحانات رکھتی ہیں۔ اسے یہ ذمہ داری ترک نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان اور اس کے عوام کو کسی بھی صورت اس ظالمانہ انجام کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔