ٹرمپ نے مکمل سفری پابندی کی فہرست میں 7 مزید ممالک شامل کر دیے، شام بھی شامل

ٹرمپ نے مکمل سفری پابندی کی فہرست میں 7 مزید ممالک شامل کر دیے، شام بھی شامل
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اُن ممالک کی فہرست میں توسیع کر دی جن پر مکمل سفری پابندی عائد ہے۔ اس فیصلے کے تحت مزید سات ممالک کے شہریوں کو، جن میں شام بھی شامل ہے.امریکہ میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایک اعلامیے پر دستخط کیے جس کے ذریعے اُن ممالک کے شہریوں پر داخلے کی پابندیاں “مزید وسیع اور سخت” کی گئیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں اسکریننگ،جانچ پڑتال (ویٹنگ) اور معلومات کے تبادلے کے نظام میں مسلسل اور سنگین خامیاں پائی جاتی ہیں، جو امریکی قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
منگل کے فیصلے کے تحت برکینا فاسو، مالی، نائیجر، جنوبی سوڈان، شام اور فلسطینی اتھارٹی کے جاری کردہ سفری دستاویزات رکھنے والے افراد پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ لاؤس اور سیرا لیون پر بھی مکمل پابندی نافذ کی گئی ہے، حالانکہ ان ممالک پر اس سے قبل صرف جزوی پابندیاں تھیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ توسیعی سفری پابندی یکم جنوری سے نافذ العمل ہوگی۔
یہ اقدام اس کے باوجود سامنے آیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے نومبر میں شامی صدر احمد الشرع سے تاریخی ملاقات کے بعد شام کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ احمد الشرع ایک سابق القاعدہ کمانڈر ہیں، جن پر حالیہ عرصے تک واشنگٹن کی جانب سے غیر ملکی دہشت گرد ہونے کی پابندیاں عائد تھیں۔
ٹرمپ نے الشرع کی حمایت کی ہے، جن کا دورہ ایک غیر معمولی سال کا اختتام تھا۔ اس سال کے دوران باغی رہنما سے حکمران بننے والے احمد الشرع نے طویل عرصے سے برسراقتدار آمر بشار الاسد کا تختہ الٹا اور اس کے بعد دنیا بھر کا سفر کر کے خود کو ایک معتدل رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جو جنگ سے تباہ حال ملک کو متحد اور دہائیوں پر محیط عالمی تنہائی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم ہفتے کے روز ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں “انتہائی سخت جوابی کارروائی” کا اعلان کیا، جب امریکی فوج نے بتایا کہ شام میں ایک مبینہ داعش حملہ آور نے امریکی اور شامی افواج کے قافلے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں دو امریکی فوجی اور ایک شہری مترجم ہلاک ہو گئے۔ حملہ آور بعد میں مارا گیا۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں اس واقعے کو “خوفناک” حملہ قرار دیا۔
وائٹ ہاؤس نے شام پر پابندی کی وجہ بتاتے ہوئے ویزہ مدت سے زیادہ قیام (اوورسٹے) کی شرح کا حوالہ دیا۔
بیان میں کہا گیا:
“شام ایک طویل خانہ جنگی اور داخلی بدامنی کے دور سے نکل رہا ہے۔ اگرچہ یہ ملک امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون سے اپنے سیکیورٹی مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اب بھی شام کے پاس پاسپورٹ یا شہری دستاویزات جاری کرنے کے لیے مناسب مرکزی اتھارٹی موجود نہیں، اور نہ ہی وہاں مؤثر اسکریننگ اور جانچ پڑتال کا نظام ہے۔”
امریکہ نے مزید ممالک کو جزوی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا
جون میں صدر ٹرمپ نے ایک اعلامیے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت 12 ممالک کے شہریوں پر مکمل سفری پابندی اور 7 دیگر ممالک پر جزوی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام “غیر ملکی دہشت گردوں” اور دیگر سیکیورٹی خطرات سے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
یہ پابندیاں تارکینِ وطن اور غیر تارکینِ وطن، دونوں پر لاگو ہوتی ہیں، جن میں سیاح، طلبہ اور کاروباری مسافر بھی شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق ان 12 ممالک پر عائد پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی۔
صدر ٹرمپ نے مزید 15 ممالک پر جزوی پابندیاں اور داخلے کی حدود بھی عائد کی ہیں، جن میں نائجیریا بھی شامل ہے۔ نائجیریا اس وقت ٹرمپ کی سخت نگرانی میں ہے، جہاں نومبر کے آغاز میں انہوں نے عیسائیوں کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک پر فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
نائجیریا کی حکومت کا کہنا ہے کہ عیسائیوں پر ظلم و ستم کے الزامات ملک کی پیچیدہ سیکیورٹی صورتحال کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔
جنوری میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدر ٹرمپ نے امیگریشن کے نفاذ کو انتہائی ترجیح دی ہے۔ انہوں نے بڑے امریکی شہروں میں وفاقی ایجنٹس تعینات کیے اور امریکی-میکسیکو سرحد پر پناہ کے متلاشی افراد کو واپس بھیجنا شروع کر دیا۔
داخلے کی پابندیوں میں یہ توسیع، گزشتہ ماہ واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد، انتظامیہ کے سخت امیگریشن اقدامات میں ایک اور اضافہ ہے۔
تحقیقاتی اداروں کے مطابق یہ فائرنگ ایک افغان شہری نے کی تھی جو 2021 میں ایک آبادکاری پروگرام کے تحت امریکہ آیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت مناسب جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی۔
فائرنگ کے چند دن بعد صدر ٹرمپ نے “تمام تیسری دنیا کے ممالک” سے ہجرت کو “مستقل طور پر روکنے” کا اعلان کیا، تاہم انہوں نے نہ تو کسی مخصوص ملک کا نام لیا اور نہ ہی اس اصطلاح کی وضاحت کی۔




