
نئے صوبوں کی بحث پھر گرم: بلاول نے ’جہاں اتفاق ہے، وہیں سے شروع کریں‘ کا مطالبہ کر دیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی یہ تجویز کہ نئے صوبوں کو وہاں ترجیح دی جائے جہاں پہلے ہی اتفاقِ رائے موجود ہے، دراصل ان افواہوں کا جواب محسوس ہوتی ہے جو حالیہ دنوں میں گردش کر رہی ہیں یعنی یہ کہ کچھ بااثر حلقے موجودہ صوبوں کو مزید انتظامی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ یہ افواہیں اس وقت زور پکڑ گئیں جب ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک اور آئینی ترمیم لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس تجویز نے ایک وسیع بحث کو جنم دیا جو زیادہ تر سیاسی خدشات کی بنیاد پر ہے کہ ملک میں مزید چھوٹے صوبے بنائے جا سکتے ہیں، خصوصاً کراچی صوبے کے حوالے سے۔
ڈان نیوز کے مطابق حال ہی میں میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب اسمبلی کی اُس قرارداد کا حوالہ دیا جس میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی بات کی گئی تھی۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اس معاملے کے کچھ پہلوؤں پر قومی اسمبلی میں بھی مختلف جماعتوں کے درمیان اتفاق موجود ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ جنوبی پنجاب صوبے پر ہونے والا اتفاق پہلے عملی شکل دی جائے، اس سے آگے بڑھنے سے قبل۔ ان کا کہنا تھا، “20 نئے صوبوں کی بات کرنے سے پہلے وہاں سے شروع کریں جہاں سب پہلے ہی متفق ہیں۔ تاہم، وہ خود بھی یہ اشارہ دیتے نظر آئے کہ اس پر فوری عملدرآمد کا امکان کم ہے۔
ڈان نیوز مذید لکھتا ہے کہ متعدد چھوٹے صوبوں کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے یہ عوامی مایوسی کا نتیجہ ہے۔ صوبائی حکومتیں مؤثر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں، جو شہریوں کے مسائل حل کر سکے، حالانکہ آئین واضح طور پر اس کی ہدایت دیتا ہے کہ اختیارات کو سیاسی، انتظامی اور مالی سطح پر نچلی سطح تک منتقل کیا جائے۔ دعووں اور سیاسی بیانیے کے باوجود، سیاسی جماعتوں میں ایک بےنام سا اتفاق موجود نظر آتا ہے کہ مقامی حکومتوں کو کمزور ہی رکھا جائے۔
ڈان نیوز کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا یہ دعویٰ کہ سندھ کا مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ پنجاب کے نئے منظور شدہ قانون کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے، بظاہر درست موازنہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ کا مقامی حکومتوں کا نظام مؤثر ہے یا یہ کہ وہ آئین کی اصل روح کی نمائندگی کرتا ہے۔
ڈان نیوز کے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ صوبوں کو چھوٹی انتظامی اکائیوں میں تقسیم کرنا ہمارے طرزِ حکمرانی کے مسائل حل نہیں کرے گا؛ بلکہ ممکن ہے انہیں مزید پیچیدہ کر دے۔ اس کے علاوہ، تاریخی صوبائی سرحدوں میں تبدیلی — جب کہ اس کے لیے کوئی مؤثر اور مضبوط عوامی مطالبہ بھی موجود نہیں، سوائے جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبے کی کچھ آوازوں کے — سیاسی طور پر بہت حساس معاملہ ہے۔ عوامی مسائل اور ناقص سروس ڈلیوری کا حقیقی حل مقامی جمہوریت کو مضبوط بنانے، اور مقامی حکومتوں کو آئین کے مطابق بااختیار کرنے میں ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ اگرچہ انتظامی بہتری کے نام پر نئے صوبے بنانے پر موجودہ توجہ غلط سمت میں ہے، لیکن اگر کسی معاملے پر عوام کی طرف سے کوئی حقیقی اور مضبوط مطالبہ سامنے آئے تو اسے رد کر دینا درست نہیں ہوگا۔ ایسی تجاویز پر کھلی بحث ہونی چاہیے، اور عوام کی رائے معلوم کی جانی چاہیے، اس سے پہلے کہ اسے آئینی طریقۂ کار کے مطابق اسمبلی میں لایا جائے اور دیکھا جائے کہ اس پر کتنا اتفاقِ رائے موجود ہے۔



