
پاکستان نے امریکہ میں گرفتار افغان نژاد مشتبہ دہشت گرد سے کسی بھی تعلق کی تردید کردی
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھارتی میڈیا کی ان رپورٹس کی سختی سے تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک پاکستانی شہری کو امریکہ میں حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
حکام نے واضح کیا کہ 24 نومبر کو امریکی ریاست ڈیلاویر میں گرفتار ہونے والا مشتبہ شخص لقمٰان خان پاکستانی نہیں بلکہ افغان شہری ہے، جو امریکہ اور افغانستان کی دوہری شہریت رکھتا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے بتایا کہ لقمٰان خان پاکستانی شہری نہیں ہے۔ وہ صرف چند برس پاکستان میں افغان پناہ گزین کے طور پر رہا، بعد ازاں بیرون ملک چلا گیا۔ وہ پاکستان میں افغان والدین کے گھر پیدا ہوا تھا لیکن اس نے کبھی پاکستانی شہریت حاصل نہیں کی۔
حکام نے مزید بتایا کہ مشتبہ شخص نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ امریکہ میں گزارا ہے، جہاں وہ یونیورسٹی آف ڈیلاویر کا طالب علم ہے، اور اس سے قبل وہ افغانستان اور افغان مہاجر کیمپوں میں بھی وقت گزار چکا ہے۔
بھارتی میڈیا کے جھوٹے دعوے
ترجمان نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے بے بنیاد خبریں پھیلائیں اور اس گرفتاری کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی تاکہ “پاکستان کو بدنام کیا جائے”۔ ترجمان نے اس غلط معلومات کو غیر ذمّہ دارانہ اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے میڈیا اداروں پر زور دیا کہ وہ حساس خبروں کو نشر کرنے سے پہلے حقائق کی تصدیق کریں۔
امریکہ میں گرفتاری اور الزامات کی تفصیل
امریکی حکام کے مطابق افغان نژاد لقمٰان خان کو 24 نومبر کو ڈیلاویر سے غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے اس کے گھر اور گاڑی سے اسلحہ، گولیاں، میگزینز، بارود اور مبینہ منصوبہ بندی سے متعلق دستاویزات برآمد کیں۔
حکام کے مطابق ایک منشور بھی ملا ہے جس میں مشتبہ شخص نے مبینہ طور پر “سب کو قتل کرنے” اور “بڑے حملے میں شہادت حاصل کرنے” کی خواہش ظاہر کی تھی، جس کا ہدف وِلمِنگٹن کیمپس بتایا جاتا ہے۔
امریکی تفتیش کاروں کے مطابق اس پر امریکہ کے خلاف حملے کی نیت رکھنے کا الزام ہے۔
پاکستان کا مؤقف دہرایا گیا
دفترِ خارجہ نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ لقمٰان خان پاکستانی نہیں ہے اور اس کے پاس امریکی اور افغان شہریت ہے۔ وہ صرف کچھ عرصہ پاکستان میں پناہ گزین کے طور پر رہا تھا جبکہ زیادہ زندگی امریکہ میں گزاری ہے۔
پاکستانی حکام نے “غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ” پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا اداروں سے کہا کہ وہ عالمی نوعیت کے حساس معاملات پر غلط بیانی سے گریز کریں۔




