
افغان عبوری حکام کی مدد سے سرگرم،جنوبی اور وسطی ایشیا میں ٹی ٹی پی سنگین خطرہ
ڈنمارک نے وسطی اور جنوبی ایشیا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے لاحق “سنگین خطرے” کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گروہ “عبوری افغان حکام کی جانب سے لاجسٹک اور عملی مدد” حاصل کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی داعش (آئی ایس آئی ایل) اور القاعدہ پابندیوں سے متعلق کمیٹی کی سربراہی کے طور پر ڈنمارک نے بدھ کے روز نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں یہ تشویش ظاہر کی۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی موجودگی طویل عرصے سے اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان تنازع کی وجہ رہی ہے۔ 2021 میں طالبان کے کابل میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان مسلسل الزام لگا رہا ہے کہ طالبان انتظامیہ ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پناہ دے رہی ہے، جنہوں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے تیز کر دیے ہیں۔
ڈنمارک کی نائب مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ سینڈرا جینسن لینڈی نے اجلاس کو بتایا کہ تقریباً 6,000 جنگجوؤں پر مشتمل ٹی ٹی پی اس خطے سے جنم لینے والا ایک اور سنگین خطرہ ہے، جسے عبوری حکام کی جانب سے لاجسٹک اور خاطر خواہ مدد حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں متعدد بڑے حملے کیے ہیں، جن میں کئی حملوں میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
لینڈی نے داعش، القاعدہ اور ان کے اتحادی گروہوں سے درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کی بھی تفصیلات پیش کیں، جو مانیٹرنگ ٹیم کی تازہ ترین رپورٹس پر مبنی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش، القاعدہ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے لاحق خطرہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے اور جغرافیائی طور پر پھیل رہا ہے، جبکہ سب سے زیادہ شدت افریقہ میں دیکھی جا رہی ہے۔ یہ گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے تشدد کو بڑھاوا دینے، نوجوانوں کی بھرتی اور فنڈ جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ کرپٹو کرنسی کا استعمال بھی پابندیوں پر عملدرآمد کے لیے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ میں شکست کے بعد داعش نے افریقہ کی طرف رخ کیا ہے، جہاں اس کی شاخ اسلامک اسٹیٹ ویسٹ افریقہ پروونس (آئی ایس ڈبلیو اے پی) نے سرگرمیوں اور پروپیگنڈے میں اضافہ کیا ہے۔
“داعش خراسان (آئی ایس آئی کے) وسطی اور جنوبی ایشیا میں سب سے خطرناک گروہوں میں سے ایک ہے، جس کے کم از کم 2,000 جنگجو ہیں۔ یہ گروہ شیعہ برادریوں، افغان عبوری حکام اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ شام، افریقہ اور وسطی ایشیا کے درمیان غیر ملکی جنگجوؤں کی نقل و حرکت بھی رکن ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
مزید کہا کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کمزور اور تقریباً غیر فعال ہو چکی ہے، مگر اس کے علاقائی گروہ خصوصاً افریقہ کے ساحل خطے میں جماعت نصر الاسلام والمسلمین — مقامی مسائل کا فائدہ اٹھا کر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہے ہیں۔ یمن میں القاعدہ جزیرہ نما عرب (اے کیو اے پی) بھی حملوں پر اکسانے اور فنڈ جمع کرنے میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر داعش اور القاعدہ نے خود کو مضبوط، لچکدار اور موقع پرست ثابت کیا ہے، جو علاقائی عدم استحکام، کمزور حکمرانی اور نئی ٹیکنالوجیز کا فائدہ اٹھا کر اپنے وجود اور اثر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لیے 1267 پابندیوں کے نظام کے تحت مسلسل چوکسی اور کثیرالجہتی تعاون ضروری ہے۔
پاکستان کا مؤقف
ڈنمارک کی بریفنگ کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل نمائندہ عثمان جدون نے اجلاس سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کا منظرنامہ مسلسل بدل رہا ہے اور نئی ٹیکنالوجیز کے سایے میں نئے خطرات سامنے آ رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جاری پرانے اور غیر حل شدہ تنازعات، بیرونی مداخلتیں اور دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو حل نہ کیے جانے سے دہشت گردی کو بڑھاوا مل رہا ہے۔
جدون نے کہا کہ پاکستان ایک فرنٹ لائن ریاست کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دے چکا ہے اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ کا خاتمہ بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا ہماری سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے افغانستان سے جنم لینے والے دہشت گردی کے خطرات جن میں داعش خراسان، ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی، بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) اور مجید بریگیڈ شامل ہیں کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، جنہیں ان کے میزبانوں کی سرپرستی اور ہمارے بنیادی مخالف کی پشت پناہی حاصل ہے۔
جدون نے زور دیا کہ 1267 پابندیوں کے نظام کو زمینی حقائق کے مطابق وسعت دینا ہوگا تاکہ افراد اور گروہوں کو مذہب، قومیت یا نسلی بنیاد سے قطع نظر شامل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ لسٹنگ اور ڈیلِسٹنگ کے معاملات سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے ہونے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشت گردی ڈھانچہ ایسے گروہوں کو بھی فہرست میں شامل کر سکے جو شدت پسند دائیں بازو، انتہائی قوم پرست، زینو فوبک اور اسلاموفوبک نظریات رکھتے ہیں۔



