دنیا خطرناک حد تک گرم ہونے کی راہ پر ، اقوام متحدہ کی نئی وارننگ

دنیا خطرناک حد تک گرم ہونے کی راہ پر ، اقوام متحدہ کی نئی وارننگ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے گرمی پیدا کرنے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے وعدے اس صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں زیادہ سے زیادہ 2.5 ڈگری سیلسیس تک اضافہ روکنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے یعنی تباہ کن ماحولیاتی اثرات سے بچنے کے لیے یہ کوششیں ناکافی ہیں۔ یہ انتباہ اقوام متحدہ (UN) کی جانب سے منگل کو جاری کیا گیا۔
سائنسدانوں کی اکثریت متفق ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیس سے زیادہ بڑھ گیا تو اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اس لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کی جانی چاہیے کہ درجہ حرارت اس حد کے قریب ہی رہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ کے مطابق تاہم دنیا تیزی سے 1.5 ڈگری کی حد عبور کرنے جا رہی ہے، اور گرمی پیدا کرنے والے اخراجات میں اضافہ مسلسل جاری ہے جو 2024 میں تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
یہ تشویشناک رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی رہنما برازیل میں جمعرات اور جمعہ کو ایک اہم اجلاس کے لیے جمع ہوں گے، جو COP30 ماحولیاتی کانفرنس کی تیاریوں کا حصہ ہے، یہ کانفرنس ایمیزون کے جنگلاتی شہر بیلیم میں منعقد ہوگی۔
چونکہ 1.5 ڈگری سے تجاوز اب ناگزیر سمجھا جا رہا ہے، اس لیے توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ درجہ حرارت کو کس حد تک اور کتنی جلدی دوبارہ محفوظ سطحوں پر لایا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا ہمارا مشن سادہ مگر مشکل ہے: درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ جتنا کم اور مختصر ہو سکے اسے اتنا ہی کم رکھا جائے۔
دنیا کے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک جو ماحولیاتی بحران کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں تیزی سے اور زیادہ کمی کریں تاکہ اس صدی کے آخر تک درجہ حرارت کو دوبارہ 1.5 ڈگری سیلسیس تک لایا جا سکے۔
لیکن اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب تک کیے گئے وعدوں نے حالات میں کوئی نمایاں بہتری نہیں لائی۔ رپورٹ میں کہا گیا۔ دنیا بھر میں مجموعی طور پر اہداف اور عملی اقدامات اس سطح کے قریب بھی نہیں ہیں جس کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کی چیف سائنسی ایڈیٹر اینی اولہوف نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اہداف اگر مکمل طور پر نافذ بھی کر دیے جائیں تو 2100 تک عالمی درجہ حرارت میں 2.3 سے 2.5 ڈگری سیلسیس کا اضافہ متوقع ہے۔
یہ اضافہ ان ممالک کی بقا کے لیے شدید خطرہ ہے جو سمندری سطح بلند ہونے اور شدید موسمی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ شکار ہیں، اور اس عالمی ناکامی کا سایہ COP30 کانفرنس پر بھی چھایا رہے گا۔
سائنسدانوں کے پاس مضبوط شواہد ہیں کہ اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے زیادہ بڑھ گیا — خواہ صرف ایک درجہ ہی کیوں نہ ہو — تو طوفانوں، سیلابوں اور دیگر آفات کی شدت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کے ناقابلِ واپسی ٹپنگ پوائنٹس کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
فی الحال زمین صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.4 ڈگری زیادہ گرم ہو چکی ہے — یہ درجہ حرارت پہلے ہی زیادہ تر استوائی مرجانوں (coral reefs) کے لیے ناقابلِ برداشت ہے، جبکہ برفانی چادریں اور ایمیزون کا جنگل 2 ڈگری سے کم اضافے پر بھی سنگین اور دیرپا تبدیلیوں کا شکار ہو سکتے ہیں، جن کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔





