چین اور امریکہ سے مزید خوشخبری سننے کو دنیا منتظر ہے،گلوبل ٹائمز کا ایڈیٹوریل

دنیا چین اور امریکہ سے مزید خوشخبری سننے کی منتظر ہے،گلوبل ٹائمز کا ایڈیٹوریل
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) گلوبل ٹائمز کے مطابق ہفتہ سے اتوار تک، چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی و تجارتی مذاکرات کا تازہ دور ملائیشیا میں منعقد ہوا۔ یہ بات چیت دونوں ممالک کے صدور کے درمیان اس سال کے آغاز سے ہونے والی فون گفتگوؤں میں طے پانے والے اہم اتفاقِ رائے کی روشنی میں ہوئی۔ دونوں فریقوں نے باہمی دلچسپی کے اہم تجارتی و معاشی معاملات پر کھل کر، گہرائی سے اور تعمیری انداز میں تبادلۂ خیال کیا۔ ان معاملات میں امریکہ کی جانب سے چین کے سمندری، لاجسٹکس اور شپ بلڈنگ سیکٹرز پر عائد سیکشن 301 اقدامات، باہمی محصولات کی معطلی میں توسیع، فینٹینیل سے متعلق محصولات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تعاون، زرعی مصنوعات کی تجارت، اور برآمدی پابندیوں سے متعلق امور شامل تھے۔ دونوں فریق اس بات پر متفق ہوئے کہ وہ مخصوص تفصیلات طے کریں گے اور اپنے اپنے ممالک کے اندر منظوری کے طریقہ کار پر عمل کریں گے۔
گلوبل ٹائمز کے مطابق گزشتہ مہینے کے دوران اُتار چڑھاؤ کے باوجود، چین اور امریکہ کے درمیان معاشی و تجارتی تعلقات نے ایک بار پھر مثبت پیش رفت دکھائی ہے، جس سے دنیا بھر میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ عالمی میڈیا نے ان مذاکرات کی پیش رفت پر فوری رپورٹنگ کی اور عمومی طور پر مثبت تجزیے پیش کیے۔ بلومبرگ نے کہا کہ اس پیش رفت نے دونوں ممالک کے لیے “تجارتی کشیدگی میں نرمی کے امکانات پیدا کر دیے ہیں”۔ امریکی میگزین فورچون نے مذاکرات سے موصول ہونے والے پیغامات کو “حوصلہ افزا” قرار دیا۔ رائٹرز اور وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی سرخیوں میں بالترتیب “کامیاب مذاکرات” اور “پُراعتماد لہجہ” جیسے الفاظ استعمال کیے۔
گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ مئی سے اب تک، چین اور امریکہ کی اقتصادی و تجارتی ٹیمیں پانچ دور کے مذاکرات کر چکی ہیں۔ اگرچہ ان مذاکرات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، لیکن مجموعی رجحان ترقی اور پیش رفت کا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باہمی احترام اور مساوی مشاورت کی بنیاد پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے خدشات کا حل نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ کلیدی بات یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے سربراہانِ مملکت کی اسٹریٹجک رہنمائی پر کاربند رہیں اور اُن کے درمیان طے پانے والے مشترکہ نکات پر مکمل عملدرآمد کریں۔ اگر دونوں ممالک باہمی بقائے باہمی کے درست راستے پر واپس آ جائیں، تو مشترکہ خوشحالی کے خواب کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔ دنیا کے سب سے اہم دوطرفہ تعلق کے طور پر، چین اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں اور مل کر کام کریں۔
اداریہ کے مطابق کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ کوالالمپور مذاکرات کے دوران امریکی فریق نے کہا امریکہ-چین اقتصادی و تجارتی تعلق دنیا کا سب سے بااثر دوطرفہ تعلق ہے” اور یہ کہ “امریکہ مساوات اور احترام کی روح کے تحت چین کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے تاکہ اختلافات کو مناسب طور پر حل کیا جا سکے، تعاون کو گہرا کیا جا سکے، اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔”
یہ الفاظ پچھلے چار مذاکراتی ادوار میں واضح طور پر نہیں سننے کو ملے تھے۔ “دنیا کا سب سے بااثر دوطرفہ تعلق” اور “مساوات و احترام کی روح میں” جیسے جملے جنیوا مذاکرات کے بعد ایک قدم آگے تصور کیے جا رہے ہیں۔ اگر ان پانچ مذاکراتی ادوار میں امریکی بیانات کا موازنہ کیا جائے تو بخوبی محسوس ہوتا ہے کہ واشنگٹن کا رویہ “باہمی احترام، پُرامن بقائے باہمی، اور مشترکہ کامیابی” کے اصولوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ نہ صرف چین-امریکہ تعلقات سے حاصل شدہ تجربے کا نچوڑ ہے بلکہ نئے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے درست راستہ بھی ہے۔ ہم امریکہ کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ واشنگٹن اسے عملی اقدامات میں بھی ڈھالے گا۔
صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے کی کامیابی میں مدد کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ترقی کر سکتے ہیں یہ دونوں ممالک اور پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔
یہ ایک دوراندیش اور اسٹریٹجک نکتۂ نظر ہے، جو نہ صرف گہرے اصولی شعور بلکہ موجودہ عالمی رجحانات کی درست تفہیم کو ظاہر کرتا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات اور تضادات غیر معمولی بات نہیں، لیکن ان اختلافات کو کیسے حل کیا جائے، یہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ عالمی ترقی اور انسانی پیش رفت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔
چین-امریکہ معاشی و تجارتی تعلقات کو اختلافات کے حل، باہمی اعتماد اور مشترکہ فائدے کے لیے ایک پل بننا چاہیے۔ اگر عالمی صنعتی و سپلائی چین کے استحکام، دونوں ممالک کی معاشی تکمیلیت، یا عالمی معیشت میں ان کی مارکیٹوں کے کردار کو دیکھا جائے تو دونوں کے درمیان تعاون مضبوط کرنے کے لیے بے شمار وجوہات موجود ہیں۔ درحقیقت، چین-امریکہ تجارتی تعلقات کی بنیاد باہمی مفاد اور دو طرفہ کامیابی پر ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں “تعاون سے فائدہ” یا “تصادم سے نقصان” جیسے دونوں مؤقف اسی حقیقت کی تائید کرتے ہیں۔
عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کی ڈائریکٹر جنرل نگوزی اوکونجو-ایویلا نے اس ماہ رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ہم واقعی امید کرتے ہیں کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور کشیدگی کم کریں گے، کیونکہ امریکہ-چین کے درمیان کسی بھی تنازع یا علیحدگی کے اثرات نہ صرف ان دو بڑی معیشتوں پر بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے طور پر، چین اور امریکہ عالمی امن، استحکام، اور خوشحالی کی خاص ذمہ داری رکھتے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں دونوں کے مشترکہ مفادات کم نہیں ہوئے بلکہ مزید بڑھ گئے ہیں۔ دونوں کے درمیان تعاون کی اسٹریٹجک اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ بیان دیا جانا کہ “دونوں ممالک مل کر دنیا میں امن و استحکام کے لیے کئی بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں”، عالمی برادری کی مشترکہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
تجارتی جنگیں اور محصولات کی جنگیں کسی کے مفاد میں نہیں۔
آخر میں گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ اقتصادی و تجارتی تعاون میں پیدا ہونے والے اختلافات یا رگڑ کو چین اور امریکہ کو مساوات، احترام اور باہمی مفاد کی بنیاد پر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ چین کے ساتھ آدھے راستے پر ملے گا، تاکہ دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ہونے والی فون گفتگوؤں میں طے پانے والے اہم اتفاقِ رائے پر مؤثر عمل درآمد ہو، باہمی اعتماد کو مضبوط کیا جائے، اختلافات کو منظم کیا جائے، دوطرفہ مفاد پر مبنی تعاون کو وسعت دی جائے، اور دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے۔



