
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی جھڑپ کو بھڑکانے والی بارودی سرنگیں ممکنہ طور پر نئی بچھائی گئی تھیں،ماہرین
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے ” رائٹرز” کے مطابق تھائی فوج کے سیکنڈ لیفٹیننٹ بارامی سریچا 16 جولائی کو تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی متنازع سرحد کے قریب گشت پر تھے جب ان کی ٹیم کے ایک رکن نے ایک بارودی سرنگ پر قدم رکھا جو پھٹ گئی اور اس کا ٹخنہ ضائع ہو گیا۔
یہ واقعہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان پانچ دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں کا سبب بنا جو بالآخر امریکا کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر ختم ہوئیں۔ اس واقعے نے پی ایم ای ٹو ماڈل کی سوویت ساختہ اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں کے حوالے سے ایک سفارتی تنازع بھی کھڑا کر دیا وہی بارودی سرنگیں جن کے استعمال پر کمبوڈیا اور تھائی لینڈ نے عالمی معاہدے کے تحت پابندی لگانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
تھائی لینڈ نے الزام لگایا ہے کہ کمبوڈیا نے سرحد کے کچھ حصوں پر نئی بارودی سرنگیں بچھائی ہیں جن کی وجہ سے جولائی سے اب تک کم از کم چھ تھائی فوجی زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بارامی کی ٹیم کا اہلکار بھی شامل ہے۔
کمبوڈیا نے یہ الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ تھائی فوجی دراصل پرانی بارودی سرنگوں پر چلے گئے جو اس کے طویل خانہ جنگی کے دوران بچھائی گئی تھیں وہی جنگ جس نے ملک کو دنیا کے سب سے زیادہ بارودی سرنگوں سے متاثرہ علاقوں میں شامل کر دیا۔
کمبوڈیا اب بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں ایک مضبوط آواز بن چکا ہے۔ اس نے گزشتہ 30 برسوں میں غیر ملکی عطیات دہندگان کے تعاون سے تقریباً ایک ارب ڈالر بارودی سرنگیں صاف کرنے کے منصوبوں پر خرچ کیے ہیں۔
“اگر کمبوڈیا نے دوبارہ اینٹی پرسنل مائنز کا استعمال کیا ہے تو یہ اس کی دہائیوں پرانی عوامی وابستگیوں سے ایک افسوسناک انحراف ہوگا،” لینڈ مائن مانیٹر کے یشوع موسر پوانگسوان نے کہا، جو عالمی مہم برائے پابندیِ بارودی سرنگوں (آئی سی بی ایل) کا حصہ ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب یورپ کے کچھ ممالک جو روس سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔اوٹاوا کنونشن (جو اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں پر پابندی لگاتا ہے) سے دستبردار ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ امریکا،روس اور چین جیسے بڑے ممالک پہلے ہی اس معاہدے کے دستخط کنندگان میں شامل نہیں ہیں۔
تھائی فوج نے رائٹرز کو ویڈیوز اور تصاویر فراہم کیں جن میں ان کے اہلکاروں کو 16 جولائی کے واقعے کے مقام کے قریب سرنگیں صاف کرتے دکھایا گیا تھا نیز 23 جولائی کو ہونے والے ایک اور دھماکے کی تصویریں بھی شامل تھیں۔
رائٹرز نے ان تصاویر کے میٹا ڈیٹا کا جائزہ لیا جس سے پتا چلا کہ یہ جولائی 18 سے 23 کے درمیان تھائی سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگوں کی صفائی کے دوران لی گئی تھیں۔ تاہم ان میں مقام کی معلومات شامل نہیں تھیں۔اس لیے رائٹرز آزادانہ طور پر ان کی جگہ کی تصدیق نہیں کر سکا۔
چار آزاد ماہرین نے رائٹرز سے کہا کہ تصویروں میں دکھائی گئی پی ایم این ٹو سرنگیں نئی بچھائی ہوئی لگتی ہیں۔ تاہم وہ یہ طے نہیں کر سکے کہ انہیں کس نے بچھایا۔
کمبوڈیا مائن ایکشن اینڈ وکٹم اسسٹنس اتھارٹی (سی ایم اے اے) نے کہا کہ حتمی نتیجہ صرف ایک غیر جانبدار تحقیق کے بعد ہی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ادارے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کمبوڈیا کی فوج کے پاس زندہ اینٹی پرسنل مائنز کا کوئی ذخیرہ موجود نہیں ہے۔
سی ایم اے اے کے نائب صدر لی تھچ جو وزیر اعظم ہن مانیت کو براہِ راست رپورٹ کرتے ہیں، نے کہا کہ کسی بارودی سرنگ کی ظاہری حالت سے اس کی عمر کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا ماحولیاتی عوامل اور زمینی تبدیلیاں کسی پرانی شے کو نسبتاً نئی دکھا سکتی ہیں۔
تھائی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ان کے فوجیوں کو زخمی کرنے والی سرنگیں نئی پی ایم این ٹو تھیں، “جن پر واضح نشانات اب بھی موجود تھے۔”
تھائی لینڈ، جو امریکا کا دیرینہ اتحادی ہے، نے کہا کہ اس نے کبھی سوویت ساختہ ہتھیار استعمال نہیں کیے اور اس کے پاس پی ایم این ٹو سرنگیں موجود نہیں ہیں۔
روس کی وزارتِ دفاع، جس نے کہا تھا کہ اس نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں پی ایم این ٹو سرنگوں کی تیاری بند کر دی تھی، نے رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
برطانیہ کے آزاد ماہر اینڈریو ویان اسمتھ کے مطابق، تصاویر میں نظر آنے والی سرنگوں کی حالت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زمین میں چند ماہ سے زیادہ نہیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرانی پی ایم این ٹو سرنگوں کی پلاسٹک باڈی عام طور پر نازک ہو جاتی ہے اور ان کی ربڑ ڈسک مٹی سے بھر جاتی ہے، جبکہ نئی سرنگوں میں یہ نشانیاں نہیں ہوتیں۔
یشوع موسر پوانگسوان نے کہا کہ اگر سرنگیں پرانی ہوتیں تو ان پر جڑیں یا پودے اگ آتے، جو ان تصاویر میں نظر نہیں آئے۔
لیکن تھچ نے جواب دیا کہ مٹی کا کٹاؤ، سیلاب یا پودوں کی منتقلی ایسی سرنگوں کو نئی دکھا سکتی ہے۔
تاہم موسر پوانگسوان نے کہا کہ سیلاب یا کٹاؤ سرنگ کی جگہ بدل سکتا ہے، مگر اسے “صاف اور نیا” نہیں بنا دیتا۔
“یہ ممکن نہیں کہ سیلاب کا پانی ان سرنگوں کو صاف کر کے دوبارہ زمین میں صاف ستھری حالت میں دفن کر دے،” اسمتھ نے کہا۔
سی ایم اے اے نے ایک بیان میں کہا کہ 16 جولائی کے دھماکے میں استعمال ہونے والی بارودی سرنگ پی ایم این ٹو نہیں تھی بلکہ ممکن ہے کہ امریکی، چینی یا ویتنامی ساختہ سرنگ ہو۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ زخمی فوجیوں سے رابطے کے بغیر وہ یہ نتیجہ کیسے اخذ کر سکتے ہیں، تو تھچ نے کہا کہ یہ صرف “ابتدائی تخمینہ” ہے جو زخمیوں کے زخموں کے پیٹرن اور محدود عوامی معلومات پر مبنی ہے۔
رائٹرز کی حاصل کردہ تصاویر میں دھماکے کے بعد کے ملبے میں (دھماکہ کرنے والا پرزہ) اور “سپرنگ وائر جیسی اشیاء موجود تھیں — جو پی ایم این ٹو کی شناختی خصوصیات ہیں۔
تھچ نے کہا کہ صرف تصاویر سے شناخت میں غلطی کا امکان رہتا ہے اور علاقے میں بارودی سرنگوں کے غیر قانونی ذخیرے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
سفارتی دباؤ
انیس سو ستر سے شروع ہونے والی خانہ جنگیوں، بشمول خمیر روج کے دورِ حکومت، نے کمبوڈیا کو تباہ کر دیا اور ملک کے بیشتر حصے، خاص طور پر تھائی لینڈ کی 1,046 کلومیٹر طویل سرحد، بارودی سرنگوں سے بھر گئے۔
انیس سو اکناوے کے امن معاہدے کے بعد بارودی سرنگوں کی صفائی کا آغاز ہوا۔ اب تک 3,200 مربع کلومیٹر علاقہ صاف کیا جا چکا ہے۔
تاہم پی ایم این ٹو سرنگیں اب بھی پائی جاتی ہیں۔ سی ایم اے اے کے مطابق ستمبر 2023 سے اب تک 1,800 سے زائد پی ایم این ٹو سرنگیں برآمد اور ناکارہ بنائی جا چکی ہیں۔
لینڈ مائن مانیٹر کے مطابق، اوٹاوا کنونشن میں شامل ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ معاہدے پر دستخط کے چار سال کے اندر اپنے تمام بارودی سرنگوں کے ذخیرے تلف کر دیں۔
تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر دباؤ بڑھانے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے پر معاہدے کے اندر موجود “کمپلائنس میکانزم” کے ذریعے کارروائی کریں۔
اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا کہ معاہدہ ایسے معاملات کے لیے ایک واضح طریقہ کار فراہم کرتا ہے اور سیکریٹری جنرل “اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر مبنی حل کی حمایت جاری رکھیں گے۔”
تھائی لینڈ نے جولائی سے اب تک اوٹاوا کنونشن کے رکن ممالک کو کئی بار آگاہ کیا ہے کہ کمبوڈیا نے مبینہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بارودی سرنگیں ذخیرہ اور استعمال کی ہیں اور مشترکہ بارودی صفائی کی تجاویز بھی مسترد کی ہیں۔