
ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ،عرب و مغربی ممالک کا محتاط خیرمقدم،فلسطینی قیادت میں شکوک برقرار
غزہ کی خونریز جنگ، جو تقریباً دو برس سے خطے کو جھلسا رہی ہے کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ یہ منصوبہ فوری جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے، اسرائیلی فوج کی مرحلہ وار واپسی، حماس کے ہتھیار ڈالنے اور ایک بین الاقوامی نگران حکومت کے قیام جیسے اقدامات پر مشتمل ہے۔
اس منصوبے کو مشرق وسطیٰ اور یورپ کے کئی رہنماؤں نے اصولی طور پر خوش آمدید کہا ہے، مگر ساتھ ہی غزہ کے عوام اور بعض ماہرین نے اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے بھی اس کے بعض نکات سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے بیشتر علاقوں میں موجود رہے گی۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کا ردِعمل
سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا کہ سیکرٹری جنرل امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جس کا مقصد جنگ بندی اور پائیدار امن حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے عرب و مسلم ممالک کے کردار کو سراہا اور تمام فریق سے معاہدے اور اس پر عمل درآمد کا عہد کرنے کی اپیل کی۔
سیکرٹری جنرل نے فوری اور مستقل جنگ بندی، غزہ میں انسانی ہمدردی کی رسائی، اور تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی پر زور دیا، اور امید ظاہر کی کہ یہ اقدامات دو ریاستی حل کے حصول کی راہ ہموار کریں گے۔ اقوام متحدہ تمام کوششوں کی حمایت پر عزم رکھتی ہے جو خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے “دی گارڈین “ کی ایک رپورٹ کے مطابق منگل کو ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے اعلان کیے گئے اس منصوبے میں فوری جنگ بندی، حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی،غزہ سے اسرائیلی فوج کی مرحلہ وار واپسی،حماس کی ہتھیار چھوڑنے اور ایک عبوری حکومت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں جو ایک بین الاقوامی ادارے کی قیادت میں ہوگی۔
تاہم منگل کی صبح تک، نیتن یاہو نے منصوبے کی کچھ شقوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا،جن میں یہ کہا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا اور اس کی فوج مکمل طور پر واپس چلی جائے گی۔ نیتن یاہو نے کہا کہ فوج غزہ کے زیادہ تر علاقوں میں موجود رہے گی۔
اقوام متحدہ کی حالیہ تحقیق
اقوام متحدہ کی حالیہ تحقیق کے مطابق جاری نسل کشی کو ختم کرنے کے لیے یہ واحد امریکی حمایت یافتہ منصوبہ ہونے کے ناطے، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، قطر، انڈونیشیا، ترکی، پاکستان اور مصر کے رہنماؤں نے اصولی طور پر اسے خوش آمدید کہا اور کہا کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے۔
واضح ہے کہ حماس اس بات کا فیصلہ کن عنصر ہے کہ آیا ٹرمپ کا امن منصوبہ عملی شکل اختیار کرے گا یا نہیں۔ ماہرین اور غزہ کے رہائشیوں نے کہا کہ مذاکرات میں حماس کی غیر موجودگی اور منصوبے میں یہ شرط کہ وہ پٹی پر حکومت کرنے سے دستبردار ہو جائے، اس کی کامیابی پر سوالات کھڑے کرتی ہے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم اور فرانس کے صدر کا درعمل
منصوبے کو کچھ ایسے امریکی اتحادیوں نے بھی حمایت دی جنہوں نے گزشتہ ہفتے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے حماس سے کہا کہ منصوبے پر عمل کرے اور “مصیبت ختم کرے”، جبکہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ حماس کے پاس اس منصوبے پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اسپین کی حکومت کا ردعمل
اسپین کی حکومت جو اسرائیل کی کارروائی کی سب سے زیادہ پرجوش یورپی ناقد رہی ہے – نے بھی منصوبے کا خیرمقدم کیا اور دونوں فریقوں سے تشدد ختم کرنے کا عزم ظاہر کرنے کو کہا۔
یورپی کمیشن کی موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب
یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈر لیئن نے کہا کہ وہ تمام فریقوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتی ہیں، جبکہ جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز، جو اسرائیل کے حلیف ہیں نے کہا کہ یہ منصوبہ جنگ ختم کرنے کا بہترین موقع ہے۔
اوباما اور بائیڈن انتظامیہ نے اچھا معاہدہ قرار دیا
اوباما اور بائیڈن انتظامیہ کے تجربہ کار سفارتکاروں نے بھی اسے “اچھا معاہدہ” قرار دیا۔ یو ایس نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سابق رکن بریٹ مک گرک نے کہا کہ اسرائیل اور عرب و اسلامی ممالک کے منصوبے کی حمایت کے ساتھ،اب تمام بین الاقوامی دباؤ کو حماس پر ڈالنا چاہیے۔
اوباما کے اسرائیل کے سابق سفیر ڈین شاپیرو نے کہا کہ اگرچہ ابھی بہت سے تفصیلات طے ہونا باقی ہیں، ٹرمپ کا منصوبہ “قابل اعتبار” ہے، اور انہوں نے کہا: “اگلا قدم یہ ہے کہ حماس اسے قبول کرے، جس کے لیے قطر اور ترکی سے سخت دباؤ ضروری ہے۔
عبوری اتھارٹی کا قیام
منصوبے کی تفصیلات کے مطابق ایک عبوری اتھارٹی جو ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں بین الاقوامی “بورڈ آف پیس” کی نگرانی میں ہوگی۔غزہ پر قابو پائے گی یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کا پروگرام مکمل کر لے۔
جو اتھارٹی مغربی کنارے میں فلسطینی امور کے لیے باضابطہ طور پر ذمہ دار ہے نے ٹرمپ کی جنگ ختم کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ایک جامع معاہدہ ہونا چاہیے جو “دو ریاستی حل کی بنیاد پر منصفانہ امن” کی راہ ہموار کرے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی رائے
بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ فوری جنگ بندی کی امید پیدا کرتا ہے لیکن اس کے طویل المدتی اثرات غیر یقینی ہیں، خاص طور پر جب فریقین کے درمیان اعتماد کی کمی موجود ہے۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ عالمی سطح پر وسیع بحث اور اختلافات کا سبب بن گیا ہے۔ جہاں اسرائیل اور کچھ مغربی حلقوں نے اسے سراہا، وہیں فلسطینی قیادت، عرب ممالک اور عالمی تنظیموں نے اسے ناکافی اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ یہ منصوبہ تبھی کامیاب ہوسکتا ہے جب فریقین براہ راست مذاکرات کی میز پر آئیں اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی جائے۔