
لاکھوں افغانوں کی پاکستان اور ایران سے واپسی نے داعش کے دوبارہ ابھرنے کے خدشات کو بڑھا دیا
نیشنل پوسٹ کے مطابق پاکستان اور ایران کی جانب سے لاکھوں افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجنے کی حالیہ لہر نے اس خدشے کو جنم دیا ہے کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیاں پھر سے بڑھ سکتی ہیں۔ سفارتی اور سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ صورتحال خطے میں شدت پسندی کو مزید تقویت دے سکتی ہے۔
جنوری سے اب تک تقریباً 26 لاکھ افغان واپس آ چکے ہیں۔ان میں سے کئی دہائیوں سے بیرون ملک رہنے والے ہیں یا پہلی بار افغانستان میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں شدت پسند گروہوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے سابق کوآرڈینیٹر ہانس-یاکب شِنڈلر نے اے ایف پی کو بتایا “ یہ خطرہ بہت زیادہ ہے کہ داعش-خراسان ان نئے آنے والے افغانوں کو بھرتی کرنے کا موقع سمجھے”۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سیکیورٹی اور نئے خدشات
2021 میں طالبان کی کامیابی اور اقتدار میں واپسی کے بعد سے افغانستان میں سیکیورٹی مجموعی طور پر بہتر ہوئی ہے۔ تاہم، اقوامِ متحدہ نے جولائی میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان “کئی دہشت گرد گروہوں کے لیے سازگار ماحول” فراہم کر رہا ہے جو وسطی ایشیا اور دیگر ملکوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق سب سے بڑا خطرہ داعش سے ہے جس کے تقریباً 2,000 جنگجو ہیں۔ اس گروپ نے گزشتہ برسوں میں روس، ایران اور پاکستان میں مہلک حملے کیے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی طالبان کے جنگجوؤں کی تعداد تین گنا زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن وہ اپنی کارروائیوں کا ہدف زیادہ تر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو بناتے ہیں۔
اسلام آباد مسلسل یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں، تاہم طالبان حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ افغانستان میں اب کوئی دہشت گرد تنظیم موجود نہیں۔
مہاجرین کے مسائل اور بھرتی کا خطرہ
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے اندازہ لگایا ہے کہ سال کے آخر تک تقریباً 40 لاکھ افغان واپس آسکتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر اندریکا رتوٹے نے کہا“واپس آنے کے بعد انہیں نوکریوں، رہائش اور بنیادی سہولتوں کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالات انہیں منفی راستے اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، جن میں مسلح گروہوں کا شکار بننا بھی شامل ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان کی آبادی کا تقریباً نصف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، جبکہ 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں سے قریب ایک چوتھائی بے روزگار ہیں۔ ایک یورپی سفارتکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ “ ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ کچھ افغان نظریاتی وابستگی کے بجائے محض معاشی مجبوری کی وجہ سے دہشت گرد گروہوں میں شامل ہوتے ہیں۔”
“کچھ کے دلوں میں پاکستان کے خلاف غصہ بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہاں ان کی جائیدادیں اور کاروبار چھین لیے گئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خطے میں سرگرم بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کے لیے موزوں ہدف ثابت ہو سکتے ہیں۔”اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی ایس ایس آئی) کی آمنہ خان کے مطابق جو افغان کئی دہائیوں کے بعد واپس آتے ہیں، انہیں مقامی لوگ اجنبی سمجھتے ہیں۔
داعش کے تربیتی مراکز اور روس کی تشویش
ماسکو کے مطابق افغانستان میں تقریباً 23 ہزار جنگجو 20 مختلف تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ روسی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سرگئی شُوئیگو نے اگست کے آخر میں کہا کہ
“سب سے بڑا خدشہ افغانستان میں داعش کی شاخ کی سرگرمیوں کا ہے، جن کے تربیتی کیمپ مشرق، شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں موجود ہیں۔”
جولائی میں روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا اور اب تک کا واحد — ملک بنا۔ ماسکو نے کہا کہ اس فیصلے سے خطے کی سلامتی اور “دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے” میں مدد ملے گی۔ شِنڈلر کے مطابق 2023 سے 2025 کے درمیان یورپ میں ناکام بنائے گئے کئی حملوں کا تعلق داعش سے جوڑا گیا ہے۔ ایک یورپی سفارتکار نے مزید کہا
“یورپ کے لیے یہ خطرہ کسی ٹِک ٹِک کرتے بم کی طرح حقیقی ہے۔”
حل: مہاجرین کے لیے باعزت مستقبل
یو این کے اندریکا رتوٹے کا کہنا ہے کہ بھرتیوں کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے بیرونی امداد کے ذریعے “باعزت مستقبل” بنایا جائے۔ تاہم، انسانی ہمدردی کا شعبہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بجٹ کٹوتیوں کا شکار ہے۔




