
“پاکستان–سعودیہ دفاعی معاہدے میں ایٹمی پہلو؟ وزیردفاع کے متضاد بیانات سے قیاس آرائیاں شدت اختیار کر گئیں“
اسلام آباد/ریاض — پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ریاض میں ہونے والے اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ نے جہاں دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی اسٹریٹجک سطح پر پہنچا دیا ہے، وہیں وزیردفاع خواجہ آصف کے متضاد بیانات نے اس معاہدے کے ممکنہ ایٹمی پہلو پر عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
وزیردفاع کے متضاد بیانات
خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی شو میں کہا تھا:
“جو کچھ ہمارے پاس ہے، اور جو صلاحیتیں رکھتے ہیں، وہ سعودی عرب کے لیے بھی دستیاب ہوں گی۔”
اس بیان کو عالمی میڈیا نے اس امکان کے طور پر لیا کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیتیں سعودی عرب تک بڑھا سکتا ہے۔
تاہم اگلے دن انہوں نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں وضاحت کرتے ہوئے کہا:
“ایٹمی ہتھیار اس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں، یہ معاملہ بالکل ریڈار پر نہیں ہے۔”
دفتر خارجہ کا محتاط ردعمل
ترجمان دفتر خارجہ شفقات علی خان نے اس موضوع پر محتاط لب و لہجہ اپنایا اور کہا:
“پاکستان کی حکمتِ عملی ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے اور اس کا ارتقاء جاری ہے۔”
جب صحافیوں نے پوچھا کہ کیا پاکستان اپنی ایٹمی پالیسی بھارت تک محدود رکھنے کے مؤقف سے ہٹ رہا ہے، تو انہوں نے براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا۔
سعودی مؤقف اور اعلامیہ
معاہدے کے بعد سعودی ذرائع نے غیر رسمی طور پر اشارہ دیا کہ ریاض کو “ایٹمی تحفظ” مل سکتا ہے۔ تاہم مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ:
“یہ معاہدہ دفاعی تعاون کو بڑھانے اور مشترکہ جارحیت کے خلاف باز deterrence قائم کرنے کے لیے ہے، اور کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں۔”
عالمی میڈیا کا ردعمل
- رائٹرز (Reuters):
نے اس معاہدے کو “potential nuclear dimension” کے تناظر میں رپورٹ کیا اور لکھا کہ خواجہ آصف کے بیانات نے دنیا بھر میں نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔
- الجزیرہ (Al Jazeera):
نے اس خبر کو “Muslim security alliance” کے تناظر میں پیش کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا یہ معاہدہ دراصل ایک “مسلم نیٹو” کی طرف پہلا قدم ہے؟
- ٹائمز آف انڈیا (Times of India):
نے اسے “خطے میں اسٹریٹجک توازن کے لیے خطرہ” قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پاکستان ایٹمی تحفظ سعودی عرب تک بڑھاتا ہے تو یہ جنوبی ایشیا کے اسٹریٹجک استحکام کو متاثر کرے گا۔
- واشنگٹن پوسٹ (Washington Post):
نے لکھا کہ امریکہ محتاط انداز میں اس معاہدے کو دیکھ رہا ہے کیونکہ واشنگٹن سعودی عرب کو پہلے ہی اپنے دفاعی نظام میں شامل رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ماہرین کی رائے
معروف تجزیہ کار ڈاکٹر معید یوسف نے کہا:
“پاکستان کو اپنی ایٹمی پالیسی کے بارے میں ابہام پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے، لیکن معاہدہ یقینی طور پر پاکستان کے لیے سفارتی اور اسٹریٹجک کامیابی ہے۔”
عرب تجزیہ کار ڈاکٹر عبداللہ الشمری نے الجزیرہ کو بتایا:
“یہ معاہدہ صرف پاکستان–سعودیہ تعلقات کا نہیں بلکہ ایک بڑے مسلم سکیورٹی اتحاد کی طرف قدم ہے۔”
دفاعی امور کے ماہر ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کے مطابق:
“اگرچہ اس معاہدے میں ایٹمی پہلو براہِ راست شامل نہیں، لیکن اس بحث نے خطے میں طاقت کے توازن پر اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔”
وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی وضاحت
لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا:
“کچھ دوسرے ممالک بھی اس طرح کے دفاعی معاہدوں میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ کئی ماہ کی بات چیت کا نتیجہ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا:
“سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا مشکل وقت میں ساتھ دیا، چاہے وہ پابندیوں کا دور ہو یا 2022-23 کا معاشی بحران۔”
پاکستان–سعودیہ دفاعی معاہدہ خطے میں نئی سفارتی اور اسٹریٹجک جہتیں کھول رہا ہے۔ وزیردفاع کے متضاد بیانات اور عالمی میڈیا کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات نے اس کے “ایٹمی پہلو” کو نمایاں کر دیا ہے۔ تاہم اسلام آباد اور ریاض دونوں اس معاہدے کو “دفاعی اور علاقائی استحکام” کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان–سعودیہ تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جا رہا ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک “اسٹریٹجک سگنل” کی حیثیت رکھتا ہے۔