اردو انٹرنیشنل روس کے نائب وزیر توانائی پاول سوروکین نے کہا ہے کہ امریکہ کی پابندیوں کے باوجود بھارت کے ساتھ روس کی تیل کی تجارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان پابندیوں کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
روس پر 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے پابندیاں عائد کیں، جس کے نتیجے میں بھارت روسی سمندری تیل کا سب سے بڑا خریدار بن گیا۔ تاہم، حالیہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے کچھ بھارتی اور چینی خریداروں نے منظور شدہ روسی جہازوں سے خریداری بند کر دی ہے۔
سوروکین نے انڈیا انرجی ویک کانفرنس میں کہا، “ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خالصتاََ معاشی ہیں اور توانائی کی تجارت سیاست کی نظر نہیں ہوناچاہیے۔” انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے صرف چند ہفتوں کے اعداد و شمار کافی نہیں ہیں، اس کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
دسمبر اور جنوری میں بھارت کو روسی تیل کی سپلائی میں کمی دیکھی گئی۔ بھارت کی سب سے بڑی آئل ریفائنری، انڈین آئل کارپوریشن (آئی او سی)، نے عندیہ دیا کہ تازہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے 31 مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال میں روسی تیل کی درآمدات میں ممکنہ کمی ہو سکتی ہے۔ تاہم، آئی او سی کے چیئرمین اے ایس سہنی نے کہا کہ کمپنی منظور شدہ اداروں کی شمولیت کے بغیر روسی خام تیل خرید رہی ہے۔
سوروکین نے امریکی پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سے عالمی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ “ترقی پذیر معیشتوں سے دسیوں ارب ڈالر چھین لیے گئے ہیں، اور انہوں نے توانائی کے شعبے میں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا دیا ہے، جہاں منصوبوں کی تکمیل میں طویل وقت لگتا ہے۔”
سوروکین نے کہا کہ روس کے پاس اپنے وسائل کو ترقی دینے کے لیے درکار تمام ٹیکنالوجی موجود ہے، اور وہ عالمی توانائی کے شعبے میں ایک بڑا کھلاڑی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ روس اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور توانائی کی تجارت میں سیاست کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔