خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اتوار کے روز اعلان کردہ 7 روزہ جنگ بندی کے باوجود ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں منگل کے روز بھی تشدد کے واقعات جاری رہے۔ پولیس اور اسپتال ذرائع کے مطابق، فائرنگ کے نتیجے میں مزید 10 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے، جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 99 اور زخمیوں کی تعداد 132 تک پہنچ گئی ہے۔
امن مذاکرات اور سیز فائر کا پس منظر
اتوار کو حکومتی جرگہ، جس کی سربراہی بیرسٹر ڈاکٹر سیف کر رہے تھے، نے اہل تشیع اور اہل سنت کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد 7 دن کے سیز فائر پر اتفاق کیا تھا۔ دونوں فریقین نے قیدیوں اور لاشوں کے تبادلے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔ تاہم، جنگ بندی کے اعلان کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومتی اقدامات اور صورتحال
ضلعی انتظامیہ نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل کر دی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کرم نے تصدیق کی کہ مسلح گروہوں کی پوزیشنز پر شیلنگ کی گئی تاکہ انہیں منتشر کیا جا سکے۔
جرگہ کی مزید کوششیں
تشدد کو روکنے کے لیے ہنگو، کوہاٹ، اور اورکزئی کے مشران پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ جلد کرم پہنچے گا۔ جرگے کا مقصد فریقین کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن کے قیام کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے۔
تعلیمی سرگرمیاں معطل
کشیدگی کے باعث علاقے کے تعلیمی ادارے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ امتحانات اور دیگر تعلیمی سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہیں، جس سے طلبہ اور والدین میں مزید تشویش پیدا ہو رہی ہے۔
عوام میں بےچینی
علاقے کے لوگ حکومتی کوششوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور امن کے قیام کے لیے مزید مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال نے عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے اور روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔