رواں سال 2024، شندور میلے کو محکمہ سیاحت خیبرپختونخوا نے موسم کی خرابی کی باعث ملتوی کردیا۔ اس فیصلے نے ہزاروں پرجوش تماشائیوں اور شرکا کے ذہنوں میں بے چینی اور مایوسی پیدا کردی ہے۔
جس کو مقامی لوگوں نے شدید دھوپ کی وجہ سے گلیشئر کے پگھلنے اور راستوں کی خرابی سمجھا اور بغیر کسی سوال کے مان لیا اور اپنا اپنا سفر موخر کیا۔لیکن پھر پاکستان میں موجود عالمی برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ کسی نامعلوم چترالی افسر نے آگاہ کیا کہ شندور کے علاقے میں برفباری کے باعث اس میلے کو موخر کیا گیا ہے جبکہ ہمارے عینی شاہد شیر باز جو کہ ایک مقامی سیاح بھی ہیں نے بتایا کہ شندور میں موسم بلکل ٹھیک ہے اور انہوں نے ثبوت کے طور پر تصاویر بھی ارسال کیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
اردو انٹر نیشنل سے مقامی صحافی طا ہر زمان نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس قابل اعتمادادارے پہ ہم اعتبار کرتے ہیں اور جنہیں خبروں کا ایک باوثوق ادارہ سمجھتے ہیں اس نے بھی صحافت کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، اور شندور پولو فیسٹیول کے ملتوی ہونے کی خبر کی گہرائی میں جانے کی بجائے کسی نامعلوم سرکاری افسر کےکھاتے میں ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ پولو گراونڈ موسم کی خرابی کی وجہ سے برف سے ڈھک چکا ہے جس کی عکاسی حکومت خیبر پختونخواہ کی جانب سے شائع کردہ تصاویر سے کرنے کی کوشش کی گئی. لوگ اصل معلومات اور اطلاعت تک رسائی چاہتے ہیں اور کسی بھی غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اصل حقائق بتانے سے گریز کرے. چاہے انتظامات کی کمی ہو یا راستوں کی بندش یا کوئی سیکیورٹی کے خدشات، اصل بات عوام تک پہنچائی جائے اور عوام کو گمراہ کرنے سے گریز کیا جائے۔
جب کہ دوسری جانب آج شائع ہونے والے ایک سرکاری مراسلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ وزارت سیاحت خیبر پختونخواہ کا یکطرفہ فیصلہ تھا اور اب موسمی تبدیلی کی دلیل کمزور نظر آتی ہے، وجہ موسمی تبدیلی نہیں کچھ اور ہے۔ دوسری جانب چترال کی علاقائی خبروں پہ نظر رکھنے والے ادارے “چترال ٹائمز” کے مطابق اس فیصلے سے مقامی لوگوں، تاجروں اور کھلاڑیوں میں تشویش پائی جاتی ہے.
سال 2012 سے اب تک یہ میلہ متعدد بار موخر ہوا چکاہے اور اس پوری دہائی میں اس میلے کے لیے کئے جانے والا کوئی بھی ترقیاتی کام ہماری نظر سے نہیں گزرا جس کی وجہ سے مقامی سطح پہ ہونے والے عالمی شہرت یافتہ میلہ شندور میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ یہاں تک آسان رسائی بنانے سے ہمارے سیاحت کا شعبہ اس ایونٹ کے نام پہ دنیا جہاں سے سیاحوں کو اس قدیم روائت کی سیر کروانے لے کر آ سکتے ہیں۔ گلگت کی حکومت اس کام میں متحرک معلوم ہوتی ہے جس کا ثبوت شندور ایکسپریس وے کی شروعات ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے شندور، چترال اور گلگت بلتستان کے بارڈر پر ایک بہت بڑا میدان ہے جو کہ چترال اور گلگت کی قدیمی گزرگاہ ہے، اس میدان میں چترال اور گلگت کے راجاوں نے یا ان کے مشیروں نے پہلی بار آپس میں پولو کھیلا تھا اور یہ تاریخی روائیت آج بھی زندہ اور جاویداں ہے۔ اور اس کو زندہ رکھنے میں مقامی عوام، عمایئدین، حکومت گلگت بلتستان، حکومت خیبر پختونخواہ اور پاکستان آرمی کی کاوشیں شامل ہیں۔ جس کی بنا پہ یہ قدیمی روائت آج ایک عالمی ایوینٹ کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع جیسے غزر، یاسین، چلاس، گوپس اور چترال کے دیگر اضلاع بونی، مستوج کی ٹیمیں بھی اسی میلے میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتی ہیں مگر میلے کے آخری دن چترال اور گلگت کی ٹیمیں آپس میں نبردآزما ہوتی ہیں۔ 1982 اور 1981 کی دہائیوں سے ہر سال کھیلا جانے والا یہ کھیل 16 بار چترال نے اور 13 بار گلگت بلتستان کی ٹیم نے جیتا ہے اور یہ پہلی بار نہیں کہ یہ میلا موخر یا منسوخ ہوا ہو۔