الیکشن کمیشن کا سینیٹ کے الیکشن 3 اپریل کو کرانے کا فیصلہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے عام انتخابات کا شیڈول تیار کر لیا، سینیٹ کی 48 نشستوں کیلئے پولنگ 3 اپریل کو قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہو گی۔
3 اپریل کو سندھ اور پنجاب سے 12،12 جبکہ اسلام آباد کے 2 سینیٹرز کا انتخاب ہو گا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11،11 نئے سینیٹرز منتخب ہوں گے۔
سینیٹ کے 52 سینیٹرز 11 مارچ کو اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہوجائیں گے، پنجاب اور سندھ کے 12،12 جبکہ سابقہ فاٹا کے 4 سینیٹرز کی مدت پوری ہو جائے گی، اسی طرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے 11،11 جبکہ اسلام آباد کے 2 سینیٹرز مدت پوری ہونے پر ایوان بالا کو خیر باد کہہ جائیں گے۔
25 ویں آئینی ترمیم کے تحت سابقہ فاٹا کی 4 سینیٹ نشستوں پر دوبارہ انتخاب نہیں ہوگا۔
بتایا جارہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے انچارج سنٹرل الیکشن سیل سینیٹر تاج حیدر نے سینیٹ کی 11 خالی نشستوں پر جلد از جلد انتخابات کرانے کیلئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھا، جس میں ان کی جانب سے سینیٹ کی خالی نشستوں پر جلد از جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر کے نام اپنے خط میں سینیٹر تاج حیدر نے لکھا کہ اس وقت سینیٹ آف پاکستان کی گیارہ نشستیں خالی ہیں، اس لیے سینیٹ نامکمل ہے اور تعداد میں کمی تقریباً 10 فیصد ہے، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 127 سینیٹ کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات سے متعلق ہے جب کہ اسی ایکٹ کا سیکشن 107 سینیٹ کے تمام انتخابات کا طریقہ کار بتاتا ہے جس کے تحت انتخابی شیڈول کے ہر مرحلے کو مکمل کرنے کے لیے ایک دن سے زیادہ کا وقت نہیں دیا جاتا۔
انہوں نے لکھا کہ استدعا ہے سینیٹ کی مذکورہ خالی نشستوں پر جلد از جلد انتخابات کرائے جائیں، خالی نشستوں میں سینیٹر یوسف رضا گیلانی، سینیٹر جام مہتاب، سینیٹر نثار کھوڑو، سینیٹر غفور حیدری، سینیٹر سرفراز بگٹی، سینیٹر نزہت صادق، سینیٹر صادق سنجرانی، سینیٹر شہزادہ عمر، سینیٹر مرحوم رانا مقبول، سینیٹر شوکت ترین اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی جانب سے چھوڑی جانے والی نشستیں شامل ہیں۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے استعفے کا مطالبہ کردیا، ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو کچھ اس الیکشن میں ہوا اس سے نظریں نہیں چھپاتے، چیف الیکشن کمشنر کو استعفی دینا چاہیے تھا کیوں کہ یہ الیکشن شفاف نہیں تھا، جو سیٹس پی ٹی آئی کی بنتی ہیں ان کو دی جائیں، 2018ء کے الیکشن میں زیر عتاب ن لیگ تھی اب پی ٹی آئی زیر عتاب ہے، اگر خدیجہ شاہ رہا ہوسکتی ہے تو یاسمین راشد ، صنم جاوید اور دیگر کا کیا قصور ہے، سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے چاہئیں۔