
میں محمدﷺ سے محبت کرتا ہوں کہنے پر مقدمہ،بھارت کے مسلمان حکومتی کریک ڈاؤن پر برہم
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے ” الجزیرہ “ کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی حکومت والے کئی بھارتی ریاستوں نے سینکڑوں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر شمالی ریاست اترپردیش کے رہنے والے ہیں — صرف اس مذہبی نعرے کے اظہار پر جو بظاہر بے ضرر تھا۔
لکھنؤ، بھارت — 4 ستمبر کی شام اترپردیش کے صنعتی شہر کانپور کے ایک مسلم اکثریتی علاقے سید نگر میں ایک روشن بورڈ جگمگانے لگا۔
اس پر لکھا تھا: “I ❤️ Muhammad” یعنی “میں محمد سے محبت کرتا ہوں”۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سید نگر کے زیادہ تر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے رہائشیوں نے ایسے سائن بورڈز کے ذریعے عید میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں اپنی گلیوں کو سجایا تھا۔
جنوبی ایشیا میں یہ دن مذہبی اجتماعات، قرآن خوانی، اور نبی کریم ﷺ کی سیرت پر خطابات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر لوگ جلوس نکالتے ہیں اور نبی ﷺ سے محبت کے اظہار کے لیے بینرز اور پوسٹر اٹھاتے ہیں۔
لیکن سید نگر میں جیسے ہی الفاظ چمکے ایک ہندو گروپ نے آ کر اعتراض کیا۔ پولیس کو بلایا گیا اور کئی گھنٹوں تک ہنگامے کے بعد وہ سائن بورڈ رات گئے ہٹا دیا گیا۔
پولیس نے نو مسلمانوں اور پندرہ نامعلوم افراد کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے اور کسی دوسری برادری کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔
سید نگر کے ہندو رہائشی موہت باجپئی، جو “سری رام نوامی سمیتی” نامی گروپ سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ انہیں
میں محمدﷺ سے محبت کرتا ہوں الفاظ پر اعتراض نہیں تھا بلکہ اس جگہ پر جہاں وہ بورڈ لگایا گیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ تمام مذاہب کو آئین کے تحت برابر حقوق حاصل ہیں لیکن یہ سائن اُس مقام پر لگایا گیا جہاں ہم عام طور پر رام نوامی کے موقع پر اپنی سجاوٹ کرتے ہیں۔ نئے مذہبی طریقے نئی جگہوں پر شروع نہیں کیے جانے چاہئیں۔
دوسری جانب مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ جگہ ہر سال عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر ان کے اجتماع کا حصہ رہی ہے۔ایک 28 سالہ شخص، جو ملزمان میں شامل ہے اور نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا نے کہا ہمیں سجاوٹ کی باقاعدہ اجازت ملی تھی۔ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے۔
کانپور میں ملزمان کے وکیل ایم اے خان نے کہا کہ ان کے مؤکلین پر الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ انہوں نے 5 ستمبر کو جلوس کے دوران ہندو برادری کا بینر پھاڑ دیا۔بہت سے نامزد افراد تو جلوس میں موجود ہی نہیں تھے
’فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے‘ کا الزام
اترپردیش، جہاں 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد مسلمان بستے ہیں یعنی سعودی عرب کی مجموعی آبادی سے زیادہ ریاست کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔
دو ہزار سترہ سے یہ ریاست وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے زیرِ انتظام ہے، جو ہندو مذہبی ہونے کے ساتھ بی جے پی کے سخت گیر رہنما سمجھے جاتے ہیں اور ان کے مخالفین انہیں مسلم دشمن بیانات کے لیے جانتے ہیں۔
کانپور کے واقعے کے کچھ دن بعد 270 کلومیٹر دور بریلی میں بھی اسی نوعیت کے واقعات پیش آئے جو بریلوی مکتبِ فکر کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
10 ستمبر کو پولیس نے بریلی میں نو مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا، جن میں ایک مذہبی عالم بھی شامل تھے، الزام یہ تھا کہ انہوں نے “فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑی” اور “ایک نئی روایت” شروع کی جو عوامی امن کے لیے خطرہ ہے۔
احتجاج اور گرفتاریوں کا سلسلہ
21 ستمبر کو مولانا توقیر رضا خان، جو “اتحادِ ملت کونسل (آئی ایم سی)” کے سربراہ ہیں اور امام احمد رضا خان بریلوی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں نے کانپور اور بریلی کے واقعات کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔انہوں نے 26 ستمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد عوام سے احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل کی۔
ضلعی انتظامیہ نے ریلی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔25 ستمبر کو آئی ایم سی نے بیان جاری کیا کہ لوگ احتجاج نہ کریں، لیکن اسی رات ایک جعلی سوشل میڈیا پیغام گردش کرنے لگا جس میں کہا گیا کہ یہ بیان جھوٹا ہےاگلے دن جمعہ کی نماز کے بعد ہزاروں مسلمان بریلی کی ایک مشہور درگاہ کے قریب جمع ہوئے،
میں محمدﷺ سے محبت کرتا ہوں” کے پوسٹر اٹھائے، اور پولیس کے خلاف نعرے لگائے۔
انتظامیہ نے الزام لگایا کہ یہ ریلی غیر قانونی تھی اور کچھ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔پولیس نے لاٹھی چارج کیا، متعدد افراد گرفتار کیے، اور شہر کا انٹرنیٹ بند کر دیا۔
گرفتاری سے قبل مولانا توقیر رضا نے ویڈیو پیغام میں کہا“ہمارے مذہبی جذبات کو دبانے کی کوشش الٹی پڑے گی۔”
اگلے دن وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے لکھنؤ میں خطاب کے دوران کہا کہ کبھی کبھی لوگوں کی بری عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں۔ ان کے لیے کچھ ’ڈینٹنگ پینٹنگ‘ ضروری ہوتی ہے… کل بریلی میں آپ نے دیکھا۔ ایک مولانا بھول گیا کہ اقتدار کس کے پاس ہے۔اسی بیان کے بعد “ڈینٹنگ پینٹنگ” عملی طور پر شروع ہو گئی — بریلی میں ایک مسلم ملزم کی ملکیت میں شادی ہال کو بلڈوزر سے گرا دیا گیا
اترپردیش اور دیگر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک گرانے کا یہ سلسلہ عام ہو چکا ہے، حالانکہ بھارت کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں “بلڈوزر جسٹس” پر پابندی عائد کی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، یہ عدالتی عمل سے بالاتر انتقامی کارروائی ہے جو متاثرہ خاندانوں کو معاشی طور پر تباہ کر دیتی ہے۔
اترپردیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائیاں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ہیں، مگر وقت اور ہدف بتاتے ہیں کہ مقصد صرف دھمکاناہے۔
سمیعہ رانا، معروف اردو شاعر منور رانا کی صاحبزادی، نے کہا“پولیس ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر رہی ہے تاکہ ان کے جائز احتجاج کو دبایا جا سکے۔ بی جے پی حکومت خوف پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمان اپنے مذہبی اور بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے ڈریں۔”
رانا نے لکھنؤ میں ریاستی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا جہاں “میں محمد سے پیار کرتا ہوں” کے پوسٹر اٹھانے والے درجن بھر مظاہرین کو کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا۔
’نبی سے محبت جرم نہیں‘
حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے مطابق اس مہم کے سلسلے میں بھارت بھر میں کم از کم 22 ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں جن میں 2,500 سے زائد مسلمانوں کے نام شامل ہیں جبکہ صرف بریلی میں 89 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
ندیم خان اے پی سی آر کے سیکرٹری نے کہا حکام نے نبی ﷺ سے محبت کے نعرے کو جرم قرار دیا ہے اور اسے اشتعال انگیز بتایا ہے۔ کئی کیسز میں تو پولیس نے قانونی ضابطے بھی پامال کیے اور ملزمان کی املاک منہدم کر دیں۔
ایس کیو آر الیاسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج کسی بھی برادری کا حق ہے۔ نبی ﷺ سے محبت کا اظہار ہمارا حق ہے۔”
وندنا مشرا، عوامی آزادیوں کی تنظیم “پیپلز یونین فار سول لبرٹیز” سے تعلق رکھنے والی کارکن، نے کہ
اپوزیشن جماعتوں نے بھی یوگی حکومت کی کارروائی پر تنقید کی۔
سماج وادی پارٹی کے رہنما ماتا پرساد پانڈے نے کہا:
“ہم نے بریلی جا کر متاثرین سے ملنے کی کوشش کی مگر ہمیں روکا گیا۔ حکومت جمہوریت کی بات کرتی ہے مگر اس کی کارروائیاں اس کے برعکس ہیں۔”
وکیل ضیا جیلانی، جو بریلی کے بعض ملزمان کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے بتایا:
“زیادہ تر گرفتار شدگان مزدور طبقے سے ہیں جو روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں۔ ان کے لیے قانونی جنگ لڑنا تقریباً ناممکن ہے۔”
انہوں نے کہا:
“یہ نفرت کی سیاست غریبوں کو نشانہ بناتی ہے، ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہے، اور انصاف و جوابدہی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے۔”