آج اس کہانی کو پورے تیس سال ہوگئے ہیں۔ فروری 1994 کی ایک شام جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز سینئیر ایک ٹی وی شو میں مدعو تھے،تو انٹرویو کے دوران شہباز نے تھوڑا سا حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ان کے کیریر کا آخری سال ہے اور اس سال چیمپئینز ٹرافی اور ورلڈ کپ دونوں منعقد ہونا ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میری کپتانی میں یہ دونوں ٹورنامنٹ جیتے۔
جس نے بھی یہ فقرہ سنا وہ ہنس دیا۔ پاکستان کو آخری بار ورلڈ کپ جیتے بارہ سال اور چیمپئنز ٹرافی جیتے چودہ سال ہوچکے تھے۔ دنیا ئے ہاکی میں ہالینڈ جرمنی اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ پاکستان کو اولمپکس میں اس سے کچھ عرصہ پہلے کافی مار پڑی تھی بلکہ ایشین گیمز میں پاکستان کوریا نے شکست دی تھی ۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے حالات کافی برے تھے ایسے میں کپتان کی ایسی خواہش پر یہی کہا جاسکتا تھا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
اس کے بعد اگلے دس مہینے میں جو کچھ ہوا وہ دنیائے ہاکی کا ایک ایسا باب ہے جو کسی اچھے ملک میں کھلا ہوتا تو اب تک اس پر درجن بھر فلمیں بن چکی ہوتیں۔ پاکستان نے شہباز کی قیادت میں دونوں ٹورنامنٹ جیتے اور ان مقابلوں میں پاکستان نے ایسی ہاکی کھیلی کہ بتانے اور دیکھنے میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ راقم ان تمام واقعات کا عینی شاہد ہے۔ شہباز کے انٹرویو کا بھی اور پھر دونوں بار اسے ٹرافیاں اٹھائے دیکھنے کا بھی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے کہ جسے سنانے کے لیے فلمیں ناول ڈرامے کم پڑ جائیں۔
پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نویں پنلٹی سٹروک پر جیتا۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جرمنی کو اور فائنل میں ہالینڈ کو سٹروکس پر ہرایا۔ منصور نے بوولینڈر کا پنلٹی سٹروک روکا۔ شہباز کی مس ہٹ آہستہ آہستہ لڑکھتی گول میں چلی گئی۔ جسے جرمنی کے گول ایمپائر نے ریجیکٹ کردیا۔ ایسی سنسنی خیز کہانیاں کہ بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔
لیکن کیا آپ میں سے کسی نے یہ کہانی کبھی پہلے سنی ہے؟ ۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کا تو ایک ایک لمحہ ہمیں یاد ہے لیکن یہ کہانی کسی نے کیوں نہیں سنائی۔ کسی نے اس پر کوئی ڈاکو منٹری کیوں نہیں بنائی۔ شہباز سینئیر، خواجہ جنید، وسیم فیروز، کامران اشرف یہ سب لوگ زندہ ہیں۔ یہ خود کیوں نہیں یہ کہانی سناتے؟ یہ اس ملک کی سب سے تھرلنگ سپورٹس سٹوری ہے لیکن اسکا کوئی کہیں ذکر نہیں۔
دنیا پروجیکشن کا کھیل ہے۔ یہاں جو خود کو اچھی طرح بیچ لے وہی کامیاب ہے۔ شہباز سینئیر ایک چھوٹے سے آفس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے۔ باقی لوگ کہیں کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم کو کوچ کرتے ہیں یا اب اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایڈمنسٹریشن لیول پر موو کرچکے ہیں۔ کوئی ذکر نہیں کرتا ایک ایسے سال کا جس کے شروع میں ایک آدمی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ وہ دنیا فتح کرنا چاہتا ہے اور پھر اس دھان پان سے آدمی نے جو کہا وہ کردکھایا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس انٹرویو کی وڈیو ملے تو پتہ چلے کہ ایگزیکٹ کس لمحے پر شہباز نے وہ بات کی تھی کیونکہ قبولیت کا ایسا لمحہ کم از کم میری نظر سے تو دوبارہ نہیں گزرا۔