
مظاہرین کو مریدکے سے منتشر کر دیا گیا،ایس ایچ اوسمیت 3 ٹی ایل پی کارکن جان سے گئے،پولیس
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ پولیس کے مطابق تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مظاہرین جو مریدکے میں اُس وقت دھرنا دیے بیٹھے تھے جب حکام نے اسلام آباد جانے والا راستہ کھود کر بند کر دیا تھا کو پیر کے روز پولیس کے ساتھ تصادم کے بعد منتشر کر دیا گیا، پولیس کے مطابق
حکام نے لاہور اور اسلام آباد کے گرد و نواح میں سڑکیں اور موٹرویز، جو اتوار کو کھلنا شروع ہو گئی تھیں ایک بار پھر بند کر دیں کیونکہ تصادم کے ممکنہ نتائج سے خوف و ہراس پھیل گیا۔ اسی دوران اسلام آباد کے کچھ اسکولوں کو بھی معمول سے پہلے بند کر دیا گیا۔
ٹی ایل پی نے جمعہ کو لاہور سے احتجاجی مارچ شروع کیا تھا جس کا مقصد اسلام آباد پہنچ کر امریکی سفارتخانے کے باہر غزہ اور فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنا تھا۔ اتوار کو قانون نافذ کرنے والے ادارے جن میں پاکستان رینجرز (پنجاب) اور پانچ اضلاع کی پولیس کی بڑی نفری شامل تھی مریدکے روانہ کی گئی تھی جہاں انہوں نے مبینہ طور پر ٹی ایل پی کے احتجاجی کیمپ کو گھیرے میں لے لیا گویا کہ کسی بڑے آپریشن کی تیاری ہو رہی ہو۔
ایک سینئر پولیس اہلکارجنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کی کارروائی پیر کی صبح 3 بجے شروع ہوئی اور چھ گھنٹے تک جاری رہی بعد ازاں پنجاب پولیس کے ترجمان مبشر حسین نے تصدیق کی کہ جھڑپ کے دوران ایک پولیس اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شہید ہو گئے جبکہ تین ٹی ایل پی کارکن مارے گئے۔
علاوہ ازیں پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر بھی ایک بیان میں کہا کہ شیخوپورہ جس ضلع میں مرید کے واقع ہے میں “مسلح گروہوں کی فائرنگ” کے نتیجے میں ایک ایس ایچ او شہید ہو گئے۔ پولیس نے تاہم ٹی ایل پی کا نام نہیں لیا۔
بیان میں کہا گیا کہ شیخوپورہ فیکٹری ایریا تھانے کے ایس ایچ او شہزاد نواز امن و امان قائم رکھنے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کی کوشش میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔
حسین کے مطابق جھڑپ میں 48 قانون نافذ کرنے والے اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے 17 کو گولی لگی جبکہ آٹھ شہری بھی زخمی ہوئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک راہگیر بھی اس واقعے میں جاں بحق ہوا ہے۔
پنجاب پولیس نے بعد میں ایکس پر بتایا کہ زخمی اہلکاروں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
حسین نے کہا کہ جب قانون نافذ کرنے والے اہلکار مظاہرین کو منتشر کرنے کی کارروائی میں مصروف تھے تو ٹی ایل پی کے کارکنوں نے ان پر پتھروں، کیلوں والے ڈنڈوں اور “پیٹرول بموں” سے حملہ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے فائرنگ بھی کی جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
انہوں نے کہا “قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو اپنی حفاظت کے لیے محدود کارروائی کرنا پڑی، اور الزام لگایا کہ ٹی ایل پی کے مظاہرین نے 40 سرکاری و نجی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
ان کے مطابق کئی مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ حکام نے جمعہ سے شروع ہونے والے احتجاج کے بعد سے ہی ٹی ایل پی کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
اسی دوران لاہور کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز فیصل کامران نے ہفتے کو میڈیا کو بتایا تھا کہ احتجاج کے آغاز سے اب تک 112 پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔
آج صبح سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر پولیس اور ٹی ایل پی کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کی ویڈیوز گردش کر رہی تھیں جن میں جلی ہوئی گاڑیاں اور دھوئیں کے بادل دکھائے گئے۔اتوار کو یہ بھی اطلاع تھی کہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
’بغاوت اور دہشتگردی‘
پنجاب کی وزیرِ اطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت اس سے منہ نہیں موڑ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں امن بحال ہو چکا ہے اور لوگ خوش ہیں، ایسے میں سڑکیں بند کرنا، عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنا، ملک کو مفلوج کرنے کی کوشش کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا ناقابلِ قبول ہے۔پنجاب حکومت کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ
“ریاست پر حملہ کرنا، پولیس پر فائرنگ کرنا اور تشدد کرنا، املاک تباہ کرنا اور لوٹ مار کرنا احتجاج نہیں بلکہ کھلی بغاوت اور دہشت گردی ہے۔ ٹی ایل پی کے مسلح جتھے قانون سے بالاتر نہیں۔ جب ریاست اپنی رِٹ قائم کرتی ہے، تو یہ نقاب پوش مجرم مظلوم بننے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔بیان کے ساتھ ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں نقاب پوش افراد کو املاک کو نقصان پہنچاتے اور تشدد کرتے دکھایا گیا”۔
وکلاء تنظیموں کی ٹی ایل پی پر تشدد کی مذمت
لاہور بار ایسوسی ایشن نے ٹی ایل پی کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان پر مبینہ فائرنگ کے خلاف پیر کی صبح 11 بجے کے بعد عدالتوں کے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ “غیر مسلح” ٹی ایل پی قیادت اور کارکنان کو مریدکے میں پولیس اور رینجرز کی فائرنگ سے زخمی کیا گیا اور بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے۔بائیکاٹ اور ہڑتال کا اعلان کیا۔
وکلاء تنظیم نے ان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) نے بھی ایک بیان میں واقعے کی مذمت کی، اور کہا کہ ہر شہری کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔جس طرح پرامن شہریوں اور سیاسی کارکنوں پر فائرنگ کی جا رہی ہے اور خون بہایا جا رہا ہے، یہ کسی جمہوری ملک کو زیب نہیں دیتا، ایل ایچ سی بی اے نے کہا وکلاء تنظیم نے مظاہرین پر تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور گرفتار کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
سڑکوں کی بندش
ڈان ڈاٹ کام کے اسلام آباد میں نمائندے کے مطابق فیض آباد انٹرچینج جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان مرکزی مقام ہے کے اردگرد کی سڑکوں کی رکاوٹیں ہٹا دی گئی تھیں، لیکن پیر کو صبح 11 بجے کے بعد خوف و ہراس پھیلنے پر زیادہ تر راستے دوبارہ بند کر دیے گئے۔
فی الحال صرف اسلام آباد ایکسپریس وے فیض آباد پر کھلی ہے۔
نمائندے کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں موبائل انٹرنیٹ کام کر رہا ہے، تاہم راولپنڈی کے کچھ علاقوں میں سروس کی بندش یا سست رفتاری کی اطلاعات ہیں۔ ٹی ایل پی کے احتجاج سے قبل جمعہ کو جڑواں شہروں میں موبائل انٹرنیٹ معطل کیا گیا تھا جو بعد میں جزوی طور پر بحال کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دارالحکومت کے کچھ اسکولوں کو آج معمول سے پہلے بند کر دیا گیا۔اسکولوں نے والدین کو پیغامات بھیجے کہ ممکنہ قانون و نظم کی صورتحال” کے پیشِ نظر اسکول جلد بند کیے جا رہے ہیں۔