
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد کے انتظامات کے حوالے سے ایک خفیہ منصوبہ سامنے آیا ہے جس کے تحت فلسطینی علاقےغزہ کی حکمرانی اور تعمیر نو کی قیادت بین الاقوامی حکام کے سپرد کی جائے گی اور اس ڈھانچے کے ممکنہ سربراہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونیار بلیئر ہو سکتے ہیں
۔ اس مجوزہ منصوبے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس میں کلیدی فلسطینی سیاسی رہنماؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے زیادہ تر اختیارات بین الاقوامی شخصیات کے ہاتھ میں دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
اکیس صفحات پر مشتمل اس ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی کردار کو محض ایک ثانوی حیثیت دی جائے گا جبکہ چیئرپرسن کو تمام بڑے فیصلوں کا اختیار حاصل ہوگا۔ منصوبے میں ایک نئی اتھارٹی کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے جو غزہ میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھائے گی اور اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور مالیاتی ماڈلز کے ذریعے اس انداز میں چلایا جائے گا کہ سرمایہ کاروں کو تجارتی منافع حاصل ہو۔
سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر ماضی میں بھی مشرقِ وسطیٰ کے لیے امن ایلچی کی حیثیت سے سرگرم رہے ہیں اور اب ایک بار پھر ان کا نام جنگِ غزہ کے بعد انتظامیہ کی قیادت کے لیے سامنے آ رہا ہے۔
اس تجویز کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف فلسطینی قیادت کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس کے نتیجے میں غزہ کو مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی سے الگ تھلگ کرنے کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔
اب تک جو لیک شدہ منصوبہ سامنے آیا ہے، اس میں کہیں بھی اسلامی ملکوں کی مشترکہ فوج یا امن فورس کو غزہ کے انتظامات پر مامور کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس مسودے کے مطابق جنگ کے بعد غزہ کا انتظام زیادہ تر بین الاقوامی حکام کے ہاتھ میں دینے کی تجویز ہے اور اس کا ممکنہ سربراہ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کو بنایا جا سکتا ہے۔