
پاکستان اور افغان طالبان کے مذاکرات استنبول میں ناکام،وفاقی وزیرعطااللہ تارڑ کی تصدیق
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے بدھ کی صبح تصدیق کی کہ افغان طالبان کے ساتھ استنبول میں ہونے والے چار روزہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے حالانکہ پاکستان نے ثبوتوں پر مبنی انسدادِ دہشت گردی کے مطالبات بار بار پیش کیے۔
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا یہ مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔عطااللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان طویل عرصے سے کابل سے ان دہشت گردوں کے خلاف تعاون کا خواہاں رہا ہے جو پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کابل میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کی سرپرستی میں چلنے والی فتنے الخوارج (ٹی ٹی پی) اور بھارتی پراکسی فتنے الہندستان (بی ایل اے) کی جانب سے جاری سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے پر بارہا بات چیت کی ہے۔
عطااللہ تارڑ نے مزید کہا کہ اسلام آباد نے طالبان حکومت سے بارہا مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان اور عالمی برادری سے کیے گئے دوحہ معاہدے کے تحریری وعدوں کو پورا کرے۔ تاہم ان کے مطابق، پاکستان کی بھرپور کوششیں بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ افغان طالبان حکومت مسلسل پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت کرتی رہی۔”
عطااللہ تارڑ نے کہا طالبان حکومت افغان عوام کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں نبھاتی بلکہ جنگی معیشت پر چلتی ہے اورافغان عوام کو ایک بلاوجہ جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوشحالی کا خواہاں اور حامی رہا ہے اور اس مقصد کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
اسی جذبے کے تحت پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ بے شمار مذاکرات کیے،لیکن افسوس کہ وہ ہمیشہ پاکستان کے نقصانات سے بے پرواہ رہے۔انہوں نے کہا چار برسوں سے جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد اب پاکستان کا صبر جواب دے چکا ہے۔
عطااللہ تارڑ کے مطابق پاکستان نے بھائی ممالک قطر اور ترکیہ کی درخواست پردوحہ اور پھر استنبول میں مذاکرات میں شرکت کی تاکہ امن کو ایک موقع دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد پیش کیے جنہیں افغان طالبان اور میزبانوں نے تسلیم کیا، لیکن بدقسمتی سے افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔
عطااللہ تارڑ نے کہا کہ افغان فریق اصل مسئلے سے بار بار ہٹتا رہا اور مکالمے کے بنیادی نکتے پر بات کرنے سے گریز کرتا رہا۔ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، ٹال مٹول اور بہانوں کا سہارا لیا۔انہوں نے قطر، ترکیہ اور دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دہشت گردی کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے مخلصانہ کوششیں کیں۔
عطااللہ تارڑ نے واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی سب سے مقدم ہے،اپنے عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کے عفریت سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام جاری رکھیں گے اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حکومت پاکستان دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں، مددگاروں اور سہولت کاروں کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
طالبان کی ہٹ دھرمی
جیو نیوز ذرائع کے حواسے سے خبر دی ہے کہ پاکستانی وفد اور ترکیہ ایک آخری کوشش کر رہے تھے کہ استنبول میں عبوری طالبان حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔
ہفتہ بھر جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران افغان وفد نے بار بار کابل سے ہدایات لے کر اپنی پوزیشن تبدیل کی، جس سے پیش رفت سست روی کا شکار رہی۔
پیر کے روز پاکستان اور افغانستان کے درمیان 18 گھنٹے طویل مذاکرات ہوئے جو آخری دن کی جانب بڑھ رہے تھے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے ٹھوس اور شواہد پر مبنی انسداد دہشت گردی کے مطالبات پیش کیے، لیکن طالبان کی غیر لچکدار پالیسی اور زمینی حقائق تسلیم کرنے سے انکار نے بامعنی پیش رفت کو روکے رکھا۔
ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان وفد نے تسلیم کیا کہ پاکستان کا مطالبہ جائز ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے کابل کی ہدایات پر اپنی پوزیشن بدلتی رہی۔
افغان اور پاکستانی ذرائع کے مطابق (خبر رائٹرز) دوحہ میں 19 اکتوبر کو ایک جنگ بندی طے پائی تھی، لیکن ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات میں فریقین کسی مستقل اتفاقِ رائے تک نہیں پہنچ سکے۔
ایک پاکستانی سیکیورٹی ذریعے نے کہا کہ طالبان تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو قابو میں کرنے کی کوئی یقین دہانی دینے پر آمادہ نہیں تھی، جو افغانستان میں آزادانہ کام کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق استنبول مذاکرات کے تیسرے دن اختلافات شدت اختیار کر گئے، جبکہ پاکستان اپنے مطالبات پر قائم رہا اور افغان وفد کابل کے احکامات کا پابند رہا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ ثالث ممالک نے بھی پاکستان کے مطالبات کو “معقول اور جائز” قرار دیا، حتیٰ کہ افغان مذاکرات کاروں نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ اسلام آباد کے مطالبات درست ہیں۔
ذرائع کے مطابق افغان طالبان وفد مسلسل کابل سے ہدایات لیتا اور ہر معاملے پر مشاورت کرتا رہا، جس سے مذاکرات میں تاخیر ہوتی رہی۔انہوں نے کہا،وفد کابل کے مکمل کنٹرول میں نظر آیا، جس کی وجہ سے پیش رفت سست رہی۔
اسلام آباد-کابل کشیدگیاں
افغان طالبان حکومت کی جانب سے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
کشیدگی اُس وقت بڑھی جب 12 اکتوبر کو طالبان فورسز اور بھارت نواز تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، المعروف فتنے الخوارج نے پاکستان پر بلا اشتعال حملہ کیا۔
پاکستانی مسلح افواج نے جوابی کارروائی میں بھرپور جواب دیا اور 200 سے زائد افغان طالبان اور ان کے اتحادی دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ان جھڑپوں میں 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔سیکیورٹی فورسز نے “درست ہدفی حملے” بھی کیے، جو افغانستان کے صوبہ قندھار، دارالحکومت کابل اور سرحدی علاقوں شمالی و جنوبی وزیرستان میں کیے گئے، جن میں دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کر دیے گئے۔
دونوں فریقین نے 19 اکتوبر کو دوحہ مذاکرات کے دوران ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور امن و استحکام کے قیام کے لیے مستقل نظام وضع کرنے پر مزید بات چیت پر رضامندی ظاہر کی تھی۔




